الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢١)


حدیث (٢١)

عَنِ أَبِيْ عَمْرٍو، وَقِيْلَ،أَبيْ عَمْرَةَ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ - رضي الله عنه - قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ! قُلْ لِيْ فِي الْإِسْلامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا غَيْرَكَ؟ قَالَ: «قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابوعمرو سفیان بن عبد اللہ t  کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول e سے کہا: اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی بات بتادیجئے جس کے بارے میں آپ کے سوا کسی اورسے نہ پوچھوں, آپ e نے ارشاد فرمایا: «کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ٹھیک ٹھیک قائم رہو»۔   (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔صحابہ مفید سوالات کرنے کے بڑے حریص تھے, خصوصاً  ایسے سوالات جن میں علم وعمل پایا جاتا ہے۔ محض علمی اور ذہنی لذت والے سوالات سے وہ دور رہا کرتے تھے, کیونکہ جس علم کے نتیجہ میں کوئی عمل نہ ہووہ بیکار اور بے فائدہ ہے۔ علی t  کا ارشاد ہے: "علم عمل کو آواز دیتا ہے اگر وہ پہنچا تو ٹھیک ورنہ علم رخصت ہوجاتا ہے"۔
                ٢۔یہ بڑی جامع اور نفع بخش وصیت ہے۔ ایمان باﷲاور استقامت ایسی دو چیزیں ہیں جن میں پورا اسلام داخل ہے۔ ایمان تمام امور عقائدیہ اور اعمال قلبیہ کو محیط ہے۔ استقامت دائیں بائیں مڑے بغیر, ہر قسم کی کجروی اور انحراف سے بچ کر صراط مستقیم کو اپنانے, اس پر ثابت قدمی کے ساتھ چلتے رہنے, اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو بخوشی برداشت کرنے کا نام ہے۔ دراصل استقامت ہر ظاہری وباطنی اطاعت کو شامل ہے۔
                ٣۔ قرآن وحدیث میں استقامت کا حکم کئی جگہ آیا ہے۔ استقامت اختیار کرنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے۔ چنانچہ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮅ  ﮆ  ﮇفصلت:٦ [سو تم اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو]۔  نیز ارشاد ہے: ﭑ   ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ    ﭚ  ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ    ﭡ  ﭢ     ﭣ فصلت:٣٠ [واقعی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اﷲہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو]۔ نیز ارشاد ہے: ﰄ  ﰅ  ﰆ  ﰇ   ﰈ  ﰉ  ﰊ  ﰋ   ﰌ  ﰍ  ﰎ     ﰏ  ﰐ  ﰑ   ﰒ  ﰓ  ﰔ  ﰕ  ﰖ   ﰗ   ﰘ  ﰙ     ﰚ  ﰛ   الأحقاف:١٣ – ١٤ [بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اﷲ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین  ہوں گے یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے]۔
                نبی e فرماتے ہیں: «اِسْتَقِيْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا» (مستدرک حاکم) استقامت اختیار کرو اور تم ہرگز اس کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے۔
                ٤۔ استقامت کے حصول کے لئے معاون اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
À  خلوت وجلوت ہر حال میں اﷲ کو یاد رکھے, اور اس کی نگرانی کا یقین دل میں بٹھائے۔
Á  نفس کی کوتاہی پر اس کا محاسبہ کرے, اور ہر غلطی کے بعد حق کی طرف رجوع ہو۔
  نفس کو اطاعت وفرماں برداری پر بزور آمادہ کرے, اوراسے نیکیوں کا عادی بنائے۔
                یادرہے کہ جسے ایمان واستقامت نصیب ہوگئی اسے دنیا وآخرت کی ہر سعادت حاصل ہوگئی۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق