الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (١٤)


حدیث (١٤)

عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِـإِحْدَىٰ ثَلَاثٍ: اَلثَّيِّبُ الزَّانِيْ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِيْنِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ». رواه البخاري ومسلم.
ترجمہ:
                عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «تین اسباب میں سے کسی ایک سبب کے بغیر مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں: Àشادی شدہ ہوکر زناکرلے، Á کسی شخص کو (جان بوجھ کر)قتل کردے, Â اپنے دین اسلام سے مرتد ہوکر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے»۔ (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ حدیث میں مذکور تین حالات کے سوا مسلمان کا خون معصوم اور محترم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت وآبرو سب کچھ حرام ہے»۔ (مسلم)
                کسی مومن کو ناحق قتل کرناگناہ کبیرہ ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے:  ( وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا  ) النساء: ٩٣ [اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کرڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اﷲ تعالی کا غضب ہے، اسے اﷲ تعالی نے لعنت کی ہے, اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے]۔
                ٢۔ اگر کوئی مکلف کسی شخص کو عمداً ناحق قتل کردے تو اس کے بدلہ میں اسے بھی قتل کیا جائے گا۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے:  ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ) البقرة:١٧٨ [اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے]۔
                ٣۔ حدیث کے عموم (جان کے بدلے جان) سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ عمرو بن حزم کی حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ البتہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح مسلم میں ثابت ہے: «لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ»۔ [کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا]  لیکن اگر وہ کافر ذمی یا معاہد یا مستأمن ہے تو اس کی دیت ادا کرنی ہوگی۔ واضح رہے کہ کافر کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے, جیسا کہ ترمذی اور نسائی کی روایت ہے۔
کفار کی چار قسمیں ہیں:
Ê حربی: جو مسلمانوں سے جنگ کی حالت میں ہو۔
Ë ذمی: جو جزیہ دے کر مسلمانوں کے ملک میں مقیم ہو, اور مسلمانوں نے اس کے جان ومال کی حفاظت کا پیمان دیا ہو۔
Ì معاہد: جس کا قیام اس کے اپنے ملک میں ہو لیکن اس سے جنگ بندی کا معاہدہ ہو۔
 مستأمن: جس سے مسلمانوں نے کوئی عہد وپیمان نہ کیا ہو, البتہ ایک متعین وقت تک اسے امان دی گئی ہو؛ مثلاً کوئی حربی کافر تجارت وغیرہ کی غرض سے امان طلب کرکے مسلمانوں کے ملک میں داخل ہوا, تو جس مدت تک اسے امان دی گئی ہے وہ مستأمن ہے۔
                ٤۔ جس شخص نے شادی شدہ ہوکر زنا کرلیا ہو اس کا خون حلال ہوجاتا ہے, اور اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے۔ اﷲکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز، غامدیہ، دو یہودیوں نیز ایک اور عورت کو رجم فرمایا ہے۔
                ٥۔ جو شخص دین اسلام چھوڑ کر برگشتہ ہوجائے اور ارتداد اختیار کرلے اس کا خون حلال ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «جو اپنا دین تبدیل کردے اسے قتل کردو»۔ (بخاری) البتہ اسے سمجھاکر توبہ کرنے اور دوبارہ مسلمان ہوجانے کی دعوت دی جائے گی, اگر اس نے توبہ کرلی اور دوبارہ اسلام میں واپس پلٹ آیا تو اسے معاف کردیا جائے گا,کیونکہ توبہ کے بعد وہ مرتد نہیں رہ گیا,اور اگر وہ اپنے کفر پر مصر رہا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔
                ٦۔ حدیث میں مذکور تین خصلتوں کے سوا چند خصلتیں اوربھی ہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان کا خون حلال ہوجاتا ہے۔ جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
١) لواطت (اغلام بازی):نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جس کسی کو قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو»۔(احمد، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ)
٢) اپنی محرم سے زنا: «ایک شخص نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا»۔(علل الدارقطنی)
٣) جادوگری: جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ''جادو گر کی سزا یہ ہے کہ اسے تلوار سے مار دیا جائے''۔(ترمذی)
٤) ایک خلیفہ کی موجودگی میں خلافت کا دوسرا دعویدار: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «جب دو خلیفہ سے بیعت کرلیا جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو»۔(مسلم) دوسری روایت میں ہے کہ «اگر تمھارے پاس کوئی شخص اس حال میں آئے کہ تمھارا معاملہ ایک شخص پر متحد ہے اور وہ تمھارا شیرازہ منتشر اور تمھاری جماعت کو متفرق کرنا چاہتا ہے تو اس کو قتل کردو»۔ (مسلم)
٥) زمین میں فساد پھیلانا۔ اس کی سزاہے قتل یا پھانسی یا جلا وطنی یا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسرے طرف کا پیر کاٹ دینا۔
          اﷲتعالی کا ارشاد ہے : ( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ)   المائدة: ٣٣  [جو اﷲتعالی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیئے جائیں, یا سولی چڑھا دیئے جائیں, یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں, یا انھیں جلاوطن کردیا جائے۔ یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے]۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق