الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (١)


حدیث (١)

عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ أَبِيْ حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللّهُٰ عَنْهُ - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِىءٍ مَا نَوَىٰ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ».
رواه إماما المحدثين أبو عبدالله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة بن بَرْدِزْبَهْ البخاري، وأبو الحسين مسلم بن الحجَّاج بن مسلم القشيري النيسابوري، في صحيحيهما اللَذين هما أصح الكتب المصنفة .
ترجمہ:
                امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ«تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے, اور ہرشخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی, چنانچہ جس شخص کی ہجرت(بہ اعتبار نیت) اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبار انجام بھی) اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے, اور جس کی ہجرت (بہ اعتبار نیت) دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبار انجام) اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے»۔
(اس حدیث کی تخریج امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی صحیح کتابوں میں کی ہے، واضح رہے کہ یہ دونوں کتابیں تصنیف کردہ کتابوں میں سب سے زیادہ صحیح ہیں)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ ایک عظیم حدیث ہے۔ علماء اس کی صحت وقبولیت پر متفق ہیں۔ امام بخاری نے اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کیا ہے۔ اس حدیث پر مدار دین ہے۔ عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اﷲ کا قول ہے: "جو شخص کوئی کتاب تصنیف کرے اسی حدیث سے اس کی ابتدا کرے"۔
                ٢۔ اس حدیث کے شان ورود کے طور پر ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص مدینہ کی ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا تھا, لیکن اس عورت نے ہجرت کے بغیر شادی کرنے سے انکار کردیا, چنانچہ اس شخص نے اس عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی، اسی بنا پر مہاجر ام قیس کے لقب سے مشہور ہوگیا۔ حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ کسی صحیح سند سے اس کی کوئی اصل ہمیں نہیں ملی۔
                ٣۔ کوئی عمل نیت کے بغیر نہیں ہوتا، انسان پہلے دل میں نیت کرتا ہے, پھر اس کو عملی شکل دیتا ہے۔اسی لئے بعض سلف کا قول ہے کہ "اگر اﷲتعالی ہمیں نیت کے بغیر عمل کا مکلف کرتا تو یہ تکلیف مالایطاق ہوتی"۔
                حدیث کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتاہے کہ اعمال کا صلاح وفساد یا ردوقبول اور ثواب وعقاب نیت کے مطابق ہوتا ہے۔
                ٤۔ ایک مسلمان کو اپنی نیت کی اصلاح ودرستگی کی فکر ہمیشہ دامن گیر ہوتی ہے،وہ اپنے ہر عمل میں ایسی ہی نیت کرتا ہے جس سے اﷲتعالی کی قربت اور اس کی جنت نصیب ہونے والی ہو، سلف صالحین کو نیتوں میں اخلاص کی بڑی فکر ہوتی تھی اور وہ اس پر بہت توجہ دیا کرتے تھے۔
                نیت اگر نیک ہو تومباحات مثلا کھانا پینا، سونا جاگنا اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا وغیرہ بھی باعث اجر وثواب ہوجاتے ہیں۔ آدمی اگر کھاتے اور سوتے ہوئے یہ نیت رکھے کہ اس سے اﷲکی اطاعت پر طاقت حاصل ہوگی اور نشاط لوٹ آئے گا تو اس پر ثواب پائے گا۔
                ٥۔ نیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اس بات کی نیت کہ وہ کس کی خاطر یہ عمل کرنے جارہا ہے ؟کیا محض اﷲ کی خاطر؟ اگر ایسا ہے تو اسی کا نام اخلاص ہے جس کے بغیر اﷲکے نزدیک کوئی عمل قابل قبول نہیں، اگر کوئی عمل اﷲکی خاطر نہ ہو بلکہ غیر اﷲکے لئے ہو, کسی بت یا ولی کے لئے ہو, یا ریاونمود اور دولت وشہرت وغیرہ کے حصول کے لئے ہو, تو وہ عمل اخلاص سے عاری اور شرکیہ ہوجاتا ہے, نیز نجات کے بجائے ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ نیت کی دوسری قسم وہ ہے جس کے ذریعہ عبادت اور عادت میں نیز خود عبادات میں ایک دوسرے سے تمیز ہوتی ہے؛ مثال کے طور پر غسل کرتے ہوئے بدن کی صفائی کی نیت ہے یا جنابت سے طہارت کی, ایسے ہی عبادت کرتے ہوئے فرض کی نیت ہے یا نفل کی۔ وغیرہ
                ٦۔ نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان, اور اﷲعزوجل کو دلوں کا حال خوب معلوم ہے, لہذا نیت کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں, بلکہ لفظی نیت شریعت سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ایک بدعت ہے۔
                ٧۔ کسی مفہوم کو ذہن سے قریب کرنے کے لئے مثالیں بیان کرنا جائز ہے, جس طرح نبی e نے مثال بیان کرکے یہ وضاحت فرمائی کہ ایک ہی عمل نیت کے مختلف ہونے کی بنا پر کس طرح گناہ یا ثواب بن جاتا ہے۔
                ٨۔ ہجرت کی تین قسمیں ہیں:
1 -  ہجرت مکانی اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ملک میں اپنے دینی شعائر آزادانہ طور پر ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کو چھوڑ کر ایسے ملک چلا جائے جہاں اسے اس کی آزادی حاصل ہو۔
2 - ہجرت عمل اور وہ یہ ہے کہ آدمی اﷲ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑدے جیسا کہ صحیحین کی ایک مرفوع حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے۔
 3 - ہجرت عامل اور وہ یہ ہے کہ بدعتی اور فاسق کو چھوڑدیا جائے، ان سے ترک تعلق کرلیا جائے حتی کہ وہ اپنی بدعت اور نافرمانی سے باز آجائیں۔ البتہ اگر ان کو چھوڑنے میں مصلحت نہ ہو تو نہ چھوڑاجائے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق