الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٤١)


حدیث (٤١)

عَنْ أَبِيْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ بِنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّىٰ يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ». حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ رَوَيْنَاهُ فِي كِتَابِ الحُجَّةِ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
ترجمہ:
                عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں»۔ (حدیث صحیح ہے کتاب الحجہ میں بہ سند صحیح ہمیں اس کی روایت ملی ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ انسان اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی محبت رسول اﷲe  کی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے، آپ کے دئیے ہوئے حکموں سے محبت کرے, اور آپ کی روکی ہوئی چیزوں سے نفرت کرے۔
                جن لوگوں کی محبت اور خواہش رسول اﷲe  کی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہے وہ کئی طرح کے لوگ ہیں:
×    ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو پوری طرح آپ کی شریعت سے بیزار ہیں ایسے لوگ کافر ہیں۔
×    دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے دل سے بیزار ہیں لیکن زبان واعضاء سے اقرار کرتے ہیں ایسے لوگ منافق ہیں۔
×    تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کبھی اپنی خواہش پہ چلتے ہیں اور کبھی شریعت پہ، حکموں کے اتباع میں کچھ کوتاہی کرتے ہیں اور بعض حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں, ایسے لوگ مومن فاسق ہیں، اپنے ایمان واتباع کی بنیاد پر مومن ہیں اور اپنی مخالفت ومعصیت کی بناپر فاسق ہیں۔
                ٢۔ حدیث میں خواہشات نفس کی مذمت وارد ہوئی ہے, خصوصاً جب وہ شریعت کے خلاف ہوں, اور واقعہ یہ ہے کہ تمام بدعات وخرافات اور تمام نافرمانیوں کی جڑ یہی ہے کہ لوگ خواہشات نفس کو کتاب وسنت پر مقدم رکھتے ہیں۔
(امام ابن قیم رحمہ اللہ نے خواہشات کے موضوع پر خوب لکھا ہے، ہم نے ان کی ایک تحریر کا ترجمہ بعنوان "نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع" کیا ہے، خواہشات کے موضوع پر اس کا مطالعہ کافی مفید ہوگا۔)

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق