الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (١٩)


حدیث (١٩)

عَنْ أَبِي عَبَّاسٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ - رضي الله عنهما - قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم يَوْمًا, فَقَالَ: «يَا غُلَامُ! إِنِّيْ أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: اِحْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ، اِحْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَاَ سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰهَ، وَإِذَاَ اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَىٰ أَن يَّنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ لَكَ، وَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَىٰ أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ، وَجَفَّتِ الصُّحُفُ». رواه الترمذي وقال: حديث حسن صحيح - وفي رواية - غير الترمذي: «اِحْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهُ أَمَامَكَ، تَعَرَّفْ إِلَى اللهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ، وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيْبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْرًا».
ترجمہ:
                عبد اللہ بن عباس w فرماتے ہیں کہ میں ایک روز نبی e کے پیچھے تھا, آپ نے فرمایا: «اے بچے! میں تجھے چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کر اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب تو مانگ تو اللہ سے مانگ, اور جب تو مدد طلب کر تو اللہ سے ہی مدد طلب کر۔ یقین جان لے کہ اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ نفع پہنچادے تو نفع نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ہے, اور اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ ضرر پہنچادے تو ضرر نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھالئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں»۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے, ترمذی کے علاوہ ایک دوسری روایت میں ہے: «اللہ کی حفاظت کر اس کو اپنے سامنے پائے گا، اللہ سے خوشحالی میں پہچان بناکے رکھ وہ سختی میں تجھے پہچانے گا,اور یقین رکھ کہ جو (نعمت یا مصیبت)تجھ سے ہٹ گئی وہ تجھ تک پہنچ نہ سکتی تھی,  اور جو تجھ کو پہنچ گئی وہ تجھ سے ہٹ نہ سکتی تھی,   یقین رکھ کہ غلبہ صبر کے ساتھ ہے, اور کشادگی تکلیف کے ساتھ ہے, اور دشواری کے ساتھ آسانی ہے»۔
فوائد واحکام:
                ١۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عظیم وصیتوں اور امور دین سے متعلق کلی قواعد پر مشتمل ہے۔
                ٢۔« اﷲکی حفاظت کرو اﷲتمھاری حفاظت کرے گا»  یعنی اس کے دین وشریعت کی حفاظت کرو، صلاتوں کی حفاظت کرو، قسموں کی حفاظت کرو، شرمگا ہوں کی حفاظت کرو،اﷲکے حدود کی حفاظت کرو، اس کے حکموں کی پابندی کرو, اور اس کی روکی ہوئی چیزوں سے رک جاؤ۔ جو شخص ایسا کرے گا اﷲاس کے دین کی، اس کے جان ومال کی اور اہل وعیال کی حفاظت فرمائے گا۔
                اﷲتعالی زندگی میں گمراہ کن شبہات اور شرک وبدعات سے, نیز حرام شہوات وخواہشات سے محفوظ رکھ کر دین کی حفاظت فرمائے گا, اور ایمان پر اس کی وفات ہوگی۔ وفات کے بعد عذاب قبر اور عذاب جہنم سے اس کی حفاظت فرمائے گا، اس کو اور اس کے اہل وعیال کو آفات اور بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے مال میں برکتیں نازل ہوں گی۔ چوری، ڈکیتی، آتش زنی اور دیگر حوادث سے مال سلامت رہے گا۔
                اﷲتعالی صالح بندوں کی اولاد کی بھی حفاظت کرتا ہے, جیسا کہ سورہ کہف میں موسیٰ اور خضر علیہم السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ خضر u  نے اﷲکے حکم سے ایک گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کردیا تھا,کیونکہ وہ ایسے دو یتیم بچوں کی تھی جن کا باپ نیک انسان تھا۔
                ٣۔ جو لوگ اﷲکے دین وشریعت کو ضائع وبرباد کردیتے ہیں اﷲتعالی بھی انھیں ضائع کردیتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﯓ  ﯔ  ﯕالتوبة: ٦٧ [یہ اﷲکو بھول گئے اﷲنے انھیں بھلادیا]۔ نیز ارشاد ہے: ﯩ   ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭالصف: ٥ [پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اﷲنے ان کے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کردیا]۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ جن سے انسان خوشی کی امید رکھتا ہے ان سے بھی اسے تکلیف پہنچنے لگتی ہے۔اس کے بیوی بچے اور نوکر چاکر سب اس کے نافرمان ہوجاتے ہیں۔
                ٤۔اﷲکے دین کی حفاظت کرنے والا اﷲکو اپنے سامنے پائے گا, یعنی اﷲتعالی اسے ہر نیکی اور بھلائی کی توفیق دے گا، ہر تنگی میں فراخی اور ہرمشکل میں آسانی فرمائے گا،اس کے دل سے ہر بے جا خوف واندیشہ دور کردے گا۔
                ٥۔ سوال صرف اﷲسے کرو، کسی مخلوق کے سامنے دست طلب دراز نہ کرو, کیونکہ اس میں ان کے سامنے ذلت وفقر کا اظہار ہے جو صرف اﷲ کے سامنے ہونا چاہئے۔ امام ابن تیمیہ نے کیا خوب فرمایا ہے: '' مخلوق سے سوال کرنے میں تین برائیاں ہیں: À غیر اﷲ کے سامنے فقر ومحتاجی کا اظہار جو شرک کی ایک صورت ہے۔ Á جس سے سوال کیا گیا ہے اس کو تکلیف پہنچانا جو مخلوق پر ظلم کی ایک صورت ہے۔ Â غیراﷲکے سامنے ذلیل ہونا جو نفس پرایک ظلم ہے۔ ''
                البتہ اگر کسی وقت انسان مخلوق سے سوال کرنے پر مجبور ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں, بشرطیکہ وہ ایسا سوال ہو جو مخلوق کے بس میں ہو, اور اس پر بھی عقیدہ یہ ہو کہ یہ اﷲکی طرف سے ایک سبب اور ذریعہ ہے, ورنہ حقیقی عطا کرنے والا اﷲتعالی ہی ہے۔
                ٦۔ حدیث میں اﷲہی سے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی e کا یہ ارشاد مروی ہے: «اپنے لئے مفید چیز کے حریص بنو، اﷲسے مدد طلب کرو اور عاجز نہ بنو»۔ نیز نبی e  نے معاذ بن جبل t  کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر صلاة کے بعد یہ دعا پڑھا کریں: «اَللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَىٰ ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ» [اے اﷲ! اپنے ذکر وشکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما]۔ قرآن پاک میں سورہ فاتحہ کے اندر بندہ کو ﭢ  ﭣ  ﭤ  ﭥ پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے, جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ اﷲکی مدد کے بغیر نہ احکام کی بجاآوری کرسکتا ہے, نہ ہی ممنوعات سے بچ سکتا ہے, اور نہ ہی آسمانی بلاؤں پر صبر کرسکتا ہے, لہذا وہ ہر گھڑی اﷲکی مدد کا محتاج ہے, اور اسے ہر ساعت اﷲسے مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔امام ابن قیم فرماتے ہیں: "استعانت میں دو اصول اکٹھا ہیں: ایک اﷲپر اعتماد کا عقیدہ دوسرے اس پر عملاً اعتماد۔ بندہ کسی شخص کو لائق اعتماد سمجھتا ہے مگر اس کے باوجود اس پر اعتماد نہیں کرتا, کیونکہ اسے اس کی حاجت نہیں ہوتی, کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی کو لائق اعتماد نہ سمجھنے کے باوجود اس کی ضرورت کی بنا پر اس پر اعتماد کرتا ہے, کیونکہ اس کا کوئی متبادل اور قائم مقام نہیں ہوتا"۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "میں نے غور کیا کہ سب سے زیادہ مفید دعا کون سی ہے؟ تو میں نے پایا کہ وہ دعا اﷲسے اس کی مرضی کے کاموں پر مدد مانگنا ہے, اور وہ سورہ فاتحہ میں موجود ہے: ﭢ  ﭣ  ﭤ  ﭥ
                ٧۔ دنیا میں بندہ کو جو بھی نفع وضرر پہنچتا ہے وہ اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ جو کچھ انسان کی تقدیر میں ہے پوری دنیا مل کر اسے نہیں ٹال سکتی۔ اس عقیدہ کا تقاضایہ ہے کہ بندہ تنہا اﷲہی سے مدد چاہے، اسی سے سوال کرے, اسی سے گریہ وزاری کرے, اورتنہا اسی کی عبادت کرے۔ قرآن پاک میں اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ   ﮊ  ﮋ   ﮌ  ﮍ  ﮎ  ﮏالتوبة: ٥١ [آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی سوائے اس کے جتنا اﷲنے ہمارے حق میں لکھ دیا ہے، وہ ہمارا کارساز اور مولی ہے]۔ نیز ارشاد ہے: ﮯ  ﮰ    ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ    الحديد: ٢٢ [نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے اور نہ (خاص) تمھاری جانوں میں مگر وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے]۔
                ٨۔ اﷲتعالی لوح محفوظ میں بندوں کی تقدیر لکھ کر فارغ ہوچکا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ «اﷲتعالی نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھ دی تھی»۔
نیز صحیح مسلم میں یہ روایت بھی ہے کہ «ایک شخص نے نبی e سے دریافت کیا: اے اﷲ کے رسول آج ہمارا عمل کس طرح ہے؟ کیا اس طرح کہ قلم خشک ہوچکے ہیں اور تقدیر جاری ہوچکی ہے یا مستقبل میں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اس میں ہے کہ قلم خشک ہوچکے ہیں اور تقدیر جاری ہوچکی ہے۔ تو صحابی نے پوچھا: پھر عمل کیونکر کریں ؟ آپ نے فرمایا: عمل کرتے جاؤ ہرکسی کے لئے وہی آسان ہوتا ہے جس پر اس کی تخلیق کی گئی ہے»۔
                ٩۔جو شخص اپنی صحت وتندرستی، امن وعافیت اور خوشحالی میں اﷲکو یاد رکھے گا، اس کی اطاعت وفرماں برداری کرے گا، واجبات وفرائض کا پابند اور حرام کاموں سے باز رہے گا, تو بیماری وخوف اور شدت ومصیبت کی حالت میں اﷲبھی اسے یاد رکھے گا، اسے خوف سے نجات دے گا, اور تنگی میں فراخی عطا کرے گا۔
اﷲ کے نبی یونس علیہ السلام کے قصہ پر غور کیجئے کہ اﷲنے انھیں مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور سبب یہ بتلایا کہ وہ تسبیح کرنے والے تھے۔ ﮠ  ﮡ   ﮢ   ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ    ﮪ  ﮫ  الصافات: ١٤٣ – ١٤٤ [پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے]۔ جب کہ ظالم فرعون کا قصہ دیکھئے کہ غرق ہونے کے وقت جب اس نے ایمان کا اعلان کیا تواﷲتعالی نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ تو اہل فساد میں سے تھا۔ ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ   ﮀ  ﮁ  يونس: ٩١ [(جواب دیا گیاکہ) اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا]۔
                ١٠۔ صبر کرنے سے فتح وغلبہ نصیب ہوتا ہے۔ صبر اپنے اندر بڑے عظیم معانی رکھتا ہے۔ اس میں دشمنوں سے جہاد اور اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے جہاد بھی شامل ہے۔ صبر سے متعلق مزید تفصیل حدیث(٢٣) میں آئے گی۔
                ١١۔ جب انسان پر مصیبت پڑتی ہے, وہ دشواریوں اور سختیوں سے دوچار ہوتا ہے, اور اﷲ کی طرف لو لگاتا ہے، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامتا ہے تو اﷲتعالی اس کے لئے آسانیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ارشاد باری ہے: ﯗ  ﯘ  ﯙ      ﯚ       ﯛ  ﯜ     ﯝ  ﯞ          ﯟ     ﯠ  الشرح: ٥ - ٦ [پس یقینا ًمشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے]۔
                ١٢۔بچوں کو عقیدہ کی تعلیم دینا اور ان کی دینی تربیت کرنا نہایت اہم اور ضروری ہے۔
                ١٣۔دوران سفر اپنا قیمتی وقت فضول گفتگو میں ضائع کرنے کے بجائے دعوت وتعلیم میں لگانا چاہئے۔ آپ e نے ابن عباس t کو یہ کلمات اس وقت سکھلائے تھے جب وہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق