الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث(٧)


حدیث(٧)

عَنْ أَبِيْ رُقَيَّةَ تَمِيْمِ بْنِ أَوْسٍ الدَّارِيِّ - رضي الله عنه - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ يَارَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: لِلّٰهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابو رقیہ تمیم بن اوس داری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دین خیر خواہی کا نام ہے»۔ ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول!  کس کی خیر خواہی کا ؟ آپ نے فرمایا: «اللہ کی, اس کی کتاب کی,  اس کے رسول کی, مسلمانوں کے حاکموں کی,  اورمسلمانوں کے عوام کی»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ بڑی عظیم الشان حدیث ہے،اس میں پورے دین کو نصیحت وخیر خواہی میں محصور کردیا گیا ہے, کیونکہ جب تک مسلمانوں میں یہ چیز باقی رہے گی ان کا دین مضبوط ومستحکم رہے گا, جب یہ چیز ان میں کمزور پڑجائے گی تو وہ خود بھی زندگی کے تمام میدانوں میں زوال وانحطاط کا شکار اور ضعیف وکمزور ہوتے چلے جائیں گے۔
                ٢۔ نصیحت لغت میں خلوص کے معنی میں آتا ہے۔ جب شہد کو موم سے الگ کرکے خالص شہد بناتے ہیں تو کہتے ہیں: نصحت العسل۔اور ایسے ہی رفوگری کے بھی معنی میں  آتا ہے, جب چاکدامنی رفو کرتے ہیں تو کہتے ہیں: نصحت الثوب۔ نصیحت نہایت جامع لفظ ہے, اردو میں اس کے لئے خیر خواہی کا لفظ کسی قدر مناسب ہے۔
                ٣۔ اﷲ کی خیرخواہی میں مندرجہ ذیل باتیں شامل ہوں گی:
1)       اﷲ پر ایمان اور اس کی توحید کا صحیح اعتقاد, یعنی اللہ اپنی ربوبیت والوہیت اور اسماء وصفات میں یکتا اور بے مثال ہے۔
2)     اﷲکی شکر گذاری، اس کے حکموں کی بجاآوری, اور اس کے ممنوعات سے اجتناب۔جہاں حکم ہے وہاں سے بندہ غائب نہ ہو, اور جہاں ممانعت ہے وہاں بندہ نظر نہ آئے۔ یہی اﷲسے محبت کی علامت ہے۔
3)   اﷲکی عبادت وبندگی میں اخلاص نیت, اور اس کی رضاو خوشنودی کی تلاش, نیزہر قسم کے شرک سے دوری۔
4)    ہر قسم کی عبادت دعا، مدد طلبی وفریاد رسی، توکل وانابت، خوف وامید، نذر وقسم وغیرہ خالص اﷲ کے لئے کرنا۔
5)    اﷲکی طرف لوگوں کو بلانا, اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو خندہ پیشانی سے گوارہ کرنا,  اور اس پر صبر سے کام لینا۔
6)     اﷲ واسطے محبت کرنا,  اور اﷲ واسطے نفرت رکھنا۔
                ٤۔ کتاب اﷲکی خیرخواہی میں حسب ذیل امور داخل ہیں:
1)       اس بات پر ایمان کہ وہ اﷲکا کلام ہے مخلوق نہیں ہے، اﷲتعالی نے اسے جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے اپنے بندے محمد e کے دل پر نازل فرمایا ہے۔ اس کے حروف ومعانی سب اﷲ کا کلام ہیں، اس کے سارے احکام مبنی بر عدل اور ساری خبریں مبنی بر صدق ہیں۔
2)     اس کی تلاوت، حفظ، فہم وتدبر اور اس پر عمل کا اہتمام, نیز قرآنی علوم کی نشر واشاعت۔
3)    قرآن حفظ کرنے والوں کی مدد, اور ان کی حوصلہ افزائی۔
                ٥۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی خیرخواہی مندرجہ ذیل باتوں کو شامل ہے:
1)       آپe پر ایمان کہ آپ اﷲکے بھیجے ہوئے سچے رسول ہیں، خاتم الانبیاء  ہیں، صدق وامانت کے پیکر تھے۔
2)     آپe کے حکموں کی تعمیل، آپ کی خبروں کی تصدیق، آپ کی ممنوعات سے اجتناب اور آپ کی شریعت کے مطابق ہی اﷲکی عبادت کرنا۔
3)    آپ eکی محبت کو اپنی جان ومال اور اہل وعیال کی محبت سے مقدم رکھنا, لیکن محبت کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ آپ کے بارے میں غلو سے کام لیا جائے, اور آپ کو آپ کے مقام سے اٹھاکر اﷲ کا مقام ومرتبہ دے دیا جائے, کیونکہ اس سے خود نبی e نے روکا ہے۔
4)    آپe کا اور آپ کی سنتوں کا اور آپ کے دین کا دفاع کرنا۔ آپ کو گالی دینے والا اور آپ کو عیب لگانے والا کافر ہے۔ آپ کے دین کو برا کہنے والا کافر ہے۔آپ کا دین مکمل ہے۔ آپ کی سنت کافی ہے۔ سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں کو اختیار کرناراہ حق سے انحراف ہے۔
5)     نبی e کی حدیثوں اور سنتوں کو عام کرنا۔
6)     نبی e کے آل واصحاب کی محبت اور تعظیم وتوقیرکرنا۔
                ٦۔ مسلمانوں کے حاکموں کی خیرخواہی میں درج ذیل امور داخل ہیں:
1)       ان سے حق بیان کرکے ان کو نصیحت کرنا۔
2)     معروف اور نیک کاموں میں ان کی اطاعت کرنا، ان کی عیب پوشی کرنا، ان کی مدد کرنا، ان کا دفاع کرنا, اور ان کے لئے دعا کرنا۔
3)    اچھے طریقے سے انھیں ظلم وزیادتی سے محفوظ رکھنا۔
مسلمانوں کے حاکموں کی اطاعت فرض ہے, البتہ جب وہ کسی معصیت کا حکم دیں تو اس وقت ان کی بات نہیں مانی جائے گی؛ کیونکہ اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے, اور خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
4)    لوگوں کے سامنے ان کے عیوب اور ان کے گناہوں کو بیان کرنے سے بچنا؛ کیونکہ اس میں فتنہ ہے, اور ان کی اطاعت سے نکلنے کا ذریعہ, نیز ان کی مذمت وغیبت میں لوگوں کے پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ابن عمر وغیرہ صحابۂکرام y حجاج جیسے ظالم اور خوں ریز حاکم کے پیچھے صلاة ادا کرتے تھے۔ منبروں پر عوام کے سامنے, یا تقریروں میں, یا دیگر علمی مجلسوں, یا تفریحی محفلوں میں مسلمان حاکموں کے عیوب کا تذکرہ دینی کمی اور عقلی حماقت کا نتیجہ ہے۔
                ٧۔ عام مسلمانوں کی خیر خواہی میں مندرجہ ذیل امور داخل ہیں:
1)       آدمی اپنے مومن بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
2)     مشورہ طلب کرنے پر ایسا خیر خواہانہ مشورہ دے گویا کہ وہ خود اس کا اپنا معاملہ ہے۔
3)    ملاقات ہو تو سلام کرے اور سلام کا جواب دے،چھینکے اور الحمدﷲکہے تو جواب میں یرحمک اﷲکہے، دعوت دے تو قبول کرے، مریض ہونے پر عیادت کرے، وفات ہونے پر جنازہ میں شریک ہو۔
4)    ہدیہ وتحفہ لیا دیا کرے، مقروض ہو اور قرض چکانے کی طاقت نہ ہو تو اس کا قرض چکادے، خود اپنا قرضہ ہو تو آسانی دے، مہلت دے یا معاف کردے۔ وقت ضرورت اس کی مدد سے منہ نہ موڑے۔ لوگوں سے اس کی سفارش کردیا کرے۔
5)     اس کی مصیبت پر خوش نہ ہو بلکہ اس کے دکھ درد میں کام آئے، اس کا مذاق نہ اڑائے، اسے حقیر نہ جانے، کسی گناہ پر اسے عار نہ دلائے۔ نہ اس کی غیبت کرے اور نہ سنے, بلکہ اگر کوئی غیبت کرتا ہو تو دفاع کرے۔
6)     ایک مسلمان کے بیع پر بیع نہ کرے اور نہ ہی اس کے پیغام نکاح پر پیغام دے۔
7)    گالی نہ دے، تہمت نہ لگائے، عیب جوئی نہ کرے بلکہ عیب پوشی سے کام لے، چغلخوری سے دور رہے، لگائی بجھائی نہ کرے۔
8)    نرمی اور خوش خلقی کا برتاؤ کرے، ظلم وستم سے پرہیز کرے اور اذیت رسانی سے بچے۔
9)      جاہلوں کو تعلیم دے اور غافلوں کو وعظ ونصیحت کرے۔
                ٨۔ ایک مسلمان ساری مخلوق کا ہمدرد اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ اسے صرف مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ غیر مسلموں کی بھی خیرخواہی مقصود ہوتی ہے ۔ غیرمسلموں کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ انھیں جہنم کی آگ اور شرک وبت پرستی سے نجات دلائی جائے۔ یہ نکتہ چونکہ دیگر نکتوں میں شامل ہے اسی لئے اسے حدیث میں خصوصی طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
(مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب "اسلامی حقوق وآداب" کا مطالعہ مفید ہوگا)۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق