الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢)


حدیث (٢)

عَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللّهُٰ عَنْهُ - قَال: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْناَ رَجُلٌ شَدِيْدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ, لاَ يُرَىٰ عَلَيهِ أَثَرُ السَّفَرِ, وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ, حَتَّىٰ جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ, وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ, وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلاَم، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «اَلْإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إلٰهَ إلَّا اللّهُٰ وَأَنَّ مُحَمَّدَاً رَسُولُ اللهِ، وَتُقِيْمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ البَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً». قَالَ: صَدَقْتَ . فَعجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرِنيْ عَنِ الْإِيْمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلاِئكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَومِ الْآَخِر، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ فَأَخْبِرْنِيْ عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللّهَٰ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِيْ عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُوْنَ فِي البُنْيَانِ». ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيَّاً ثُمَّ قَالَ: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللّهُٰ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ, قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيْلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِيْنَكُمْ». رواه مسلم .
ترجمہ:
                عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص خوب سفید کپڑوں اور سخت کالے بالوں میں نمودار ہوا، اس پر سفر کا کوئی نشان نہ تھا اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبیe کے قریب آکر بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ٹیک دیئے, اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی دونوں رانوں پہ رکھا اور سوال کیا: اے محمد ! آپ مجھے اسلام کے بارے میں بتلایئے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں, اور صلاة قائم کرو, اور زکاة دو, اور رمضان کا صوم رکھو, اور بیت اللہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچنے کی تم میں استطاعت ہے»۔ اس نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں۔ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود سوال کرتا ہے اور خود ہی (جواب کی) تصدیق کرتا ہے۔ اس نے پھر کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر ایمان لاؤ, اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ»۔ اس نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتلایئے ؟ آپ نے فرمایا: «احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو, اور اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے ہو تو وہ یقینا ًتمھیں دیکھ رہا ہے»۔ اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں خبر دیجئے؟ آپ نے فرمایا: «جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا»۔ اس نے کہا: تو اس کی علامات کے بارے میں بتلایئے ؟ آپ نے فرمایا: «[چند علامات یہ ہیں کہ] لونڈی اپنی آقا [مالکن] کو جنے گی, اور تم دیکھو گے کہ ننگے پیر، ننگے بدن، فقیر اور بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بناکر ایک دوسرے پر فخر کریں گے»۔پھر وہ چلا گیا،میں ایک مدت تک منتظر رہا (پھر ایک دن) نبی e نے فرمایا: «اے عمر ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟» میں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ eنے فرمایا: «وہ جبریل تھے، تم کو تمھارے دین کی تعلیم دینے آئے تھے»۔  (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث بہت عظیم ہے،''حدیث جبریل '' کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے اندر اجمالی طور پر پورے دین کا ذکر ہے, اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ «جبریل تم کو تمھارا دین سکھلانے آئے تھے»۔
                ٢۔ فرشتے کبھی انسانی شکل اختیار کرکے آتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام بہ کثرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آیا کرتے تھے۔
                ٣۔ طالب علم کو اپنے استاد کے سامنے بڑے ادب واحترام کے ساتھ بیٹھنا چاہئے۔
                ٤۔ اس حدیث میں اسلام کے پانچ ارکان کا بیان ہے جس کی تفصیل اگلی حدیث میں آرہی ہے۔
                ٥۔ اس حدیث میں ایمان اور اسلام کے درمیان فرق کیا گیا ہے، اسلام اعضاء وجوارح کے ظاہری اعمال کو کہا گیا ہے, جبکہ ایمان میں قلبی اعمال ذکر کئے گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب اسلام وایمان کو اکٹھا ذکر کیا جائے تو دونوں دوالگ الگ مفہوم رکھتے ہیں, لیکن اگر صرف کسی ایک کا ذکر ہو تو اس کے اندر دونوں کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ اسی لئے اہل علم کا قول ہے: ''ہرمومن مسلمان ہے اور ہر مسلمان مومن نہیں'' کیونکہ ایمان جس کے دل میں رچ بس جائے گا وہ اسلام کے اعمال ضرور انجام دے گا, لیکن جو شخص اسلام کے ظاہر ی اعمال انجام دے رہا ہے ضروری نہیں کہ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو۔
                ٦۔ اعمال ایمان میں داخل ہیں، ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
                ٧۔ ایمان کے چھ ارکان ہیں:Œ اﷲ پر  اس کے فرشتوں پر Ž اس کی کتابوں پر  اس کے رسولوں پر  یوم آخرت پر تقدیر کی بھلائی اور برائی پر ایمان لانا۔
                ایمان باﷲکے ضمن میں اﷲکے وجود، اس کی ربوبیت والوہیت اور اسماء وصفات پر ایمان لانا داخل ہے۔ یعنی وہ سارے جہان کا پالنہار ہے، تمام اگلوں پچھلوں کی عبادت کا تنہا مستحق ہے۔ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اپنی ہر چھوٹی بڑی مخلوق اور کائنات کے ذرہ ذرہ کا اسے علم ہے۔ اس کی نظر سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، اس کے پیارے پیارے نام اور بلند کمالات ہیں جو اس کے شایان شان ہیں، ہم ان پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اﷲاور اس کے رسول نے ہمیں خبردی ہے، نہ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں اور نہ ہی مثال،نہ ہی اس کی تاویل کرتے ہیں اور نہ ہی تحریف وتعطیل۔
                فرشتوں پر ایمان میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اﷲکی ایک مخلوق ہیں، اس کے معزز بندے ہیں، وہ اﷲ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، نور سے پیدا کئے گئے ہیں، نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں، کسی اکتاہٹ کے بغیر شب وروز اﷲکی تسبیح میں مشغول ہیں، وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کی گنتی اﷲکے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ کچھ فرشتوں کے مخصوص کاموں کا ذکر بھی قرآن وحدیث میں آیا ہے, ان پر ایمان بھی فرشتوں پر ایمان کا ایک حصہ ہے۔
                کتابوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف رسولوں پر بہت سی کتابیں نازل فرمائیں، وہ سب حقیقت میں اﷲتعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ ان میں کچھ کتابوں کا نام ہمیں معلوم ہے؛ مثلاً توریت وانجیل وزبور,ہم ان پر نام بنام ایمان رکھتے ہیں, بہت سی کتابوں کا نام ہمیں معلوم نہیں, ہم ان پر مجملاً ایمان رکھتے ہیں۔ نیز یہ ایمان بھی رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے ذریعہ تمام سابقہ کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ قرآن مجید تمام سابقہ کتابوں  پر حاکم اور فیصل ہے۔
                رسولوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسالت اﷲتعالی کی طرف سے برحق ہے۔ ایک کی رسالت کا منکر تمام کی رسالت کا منکر مانا جائے گا۔ سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام اور سب سے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔جن نبیوں اور رسولوں کا نام ہمیں معلوم ہے ان پر نام بنام ورنہ اجمالی طور پر ایمان رکھنا ہے۔ ان سے متعلق ثابت اور صحیح خبروں پر ایمان لانا ہے, اور اپنی طرف بھیجے گئے رسول کی شریعت کے مطابق عمل کرناہے۔
                یوم آخرت پر ایمان کے ضمن میں ان تمام باتوں پر ایمان لانا داخل ہے جو موت کے بعد قبر کے عذاب وآرام، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا، جزا وحساب اور جنت وجہنم وغیرہ سے متعلق قرآن وحدیث سے ثابت ہیں۔
                تقدیر پر ایمان اس بات کو شامل ہے کہ اﷲتعالی کو ساری چیزوں کا اجمالی اور تفصیلی علم حاصل ہے، اس نے سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، اس کی مشیئت اور چاہت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا،نہ کوئی ذرہ اپنی جگہ سے اڑسکتا ہے اور نہ کوئی پتہ ہل سکتا ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء اپنی ذات وصفات اور حرکات ہر اعتبار سے اﷲکی مخلوق ہیں۔
                ٨۔ احسان کے لفظی معنی ہیں کسی کام کو عمدہ اور بہتر انداز میں کرنا۔ اصطلاح میں احسان کی دو قسمیں ہیں: ایک تو اﷲکی عبادت میں احسان جس کا اس حدیث میں ذکر ہے, یعنی اﷲکی عبادت اس طرح کرو گویا اس کو دیکھ رہے ہو, اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ یقیناً تم کو دیکھ رہا ہے۔ یعنی بندہ ایسے شوق ورغبت سے اﷲکی عبادت کرے گویا وہ اﷲکو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے, اور اگر اس کو یہ مقام حاصل نہیں تو یہ یقین لازمی طور پر ہونا چاہئے کہ اﷲتعالی اسے دیکھ رہا ہے۔ احسان کی دوسری قسم یہ ہے کہ اﷲکے بندوں کے ساتھ معاملات میں حسن سلوک کا رویہ اپنایا جائے۔ ان کے ساتھ جود وسخا کیا جائے، ان کی مصیبتوں میں کام آیا جائے، ان سے مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملا جائے اور دیگر اعمال خیر انجام دیئے جائیں۔
                ٩۔ قیامت کے قائم ہونے کا متعین وقت اﷲکے سوا کوئی نہیں جانتا,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: «جس سے پوچھا گیا وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا» یعنی وقت قیامت کے بارے میں ساری مخلوق کا علم یکساں ہے, اﷲکے سواکسی کو اس کی خبر نہیں,جو شخص قیامت قائم ہونے والے وقت کے جاننے کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے, اور جو اس کے دعوے کی تصدیق کرے وہ گمراہ ہے۔ کیونکہ یہ غیب دانی کا دعوی ہے, اور غیب کا علم اﷲکے سوا کسی کو نہیں۔
                ١٠۔ عالم جواب نہ معلوم ہونے پر یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں، اس سے اس کے مقام ومرتبے میں کوئی کمی نہیں ہوتی, بلکہ یہ اس کی دینداری کی دلیل ہے, جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے قیامت کے وقت کا علم نہ ہونے پر صاف صاف کہہ دیا کہ «جس سے پوچھا گیا وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا»۔
                ١١۔ اس حدیث میں قیامت کی بعض علامات کا بیان ہے۔
À لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی۔ یعنی فتوحات ہوں گی اور لونڈیاں بڑھ جائیں گی اور ایسے ہی ان کی اولاد بھی،پھر ماں اپنے آقا کی لونڈی ہوگی اور اس سے ہونے والی اولاد اس کے آقا کے درجے میں ہوگی۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ لونڈی سے بچی پیدا ہوگی اور وہ بڑی ہوکر ایسی امیر ہوگی کہ اپنی ماں جیسی لونڈیوں کی مالک ہوگی, گویا اس حدیث میں مال ودولت کی کثرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز بہت سے اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ قیامت کے قریب اولاد نافرمان اور خودسر ہوجائے گی, اور اپنے والدین کے ساتھ غلاموں اور لونڈیوں جیسا سلوک کرے گی۔
Á آپ ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ یعنی پست قسم کے لوگ سردار بن جائیں گے, اور مال کی اس قدر فراوانی ہوجائے گی کہ اونچی بلڈنگیں اور بلند وبالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے میں فخریہ مقابلہ کریں گے۔
                ١٢۔ لوگوں کی ضرورت کے مطابق عالم سے کوئی سوال کرنا بھی تعلیم کا ایک طریقہ ہے؛ کیونکہ اس واقعہ میں جبریل علیہ السلام نے صرف سوالات کئے تھے پھر بھی نبی e نے ان کے حق میں فرمایاکہ وہ تم کو تعلیم دینے کے لئے آئے تھے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق