الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٦)


حدیث (٦)

عَنْ أَبِيْ عَبْدِ اللهِ النُّعْمَانِ بْنِ بِشِيْرٍ - رضي الله عنهما - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُوْلُ: «إِنَّ الْحَلالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ, وَبَيْنَهُمَا أُمُوْرٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيْرٌ مِنَ النَّاسِ, فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِيْنِهِ وعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ؛ كَالرَّاعِي يَرْعَىٰ حَوْلَ الحِمَىٰ يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيْهِ. أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى. أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ, وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ».  رواه البخاري ومسلم .
ترجمہ:
                ابو عبداللہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: «یقیناً حلال واضح ہے اور بے شک حرام واضح ہے, اور ان دونوں کے درمیان کچھ شبہہ کی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے, چنانچہ جو شخص شبہہ کی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنے آبرو کو بچالیا, اور جو شبہہ والی چیزوں میں پڑجائے گا وہ حرام میں پڑجائے گا, جیسے ایک چرواہا جو کسی محفوظ چراگاہ کے ارد گرد چرارہا ہو بہت ممکن ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا ریوڑ چلا جائے, خبردار! ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ ہوتی ہے (جس کے اندر دوسروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے)۔ خبردار! اللہ کی محفوظ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بے شک جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجائے, اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑجائے۔ جان لو کہ وہ دل ہے»۔  (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ حلال وحرام کا معاملہ بالکل واضح اور عیاں ہے کسی سے پوشیدہ نہیں, لہذا جہاں حرام سے مکمل دوری اختیار کرنا ایک مسلمان کا فريضہ ہے وہیں حلال سے لطف اندوز ہونے کے لئے اسے کوئی رکاوٹ نہیں, کسی کے لئے یہ جائز اور درست نہیں کہ وہ اﷲ کی حلال کردہ کسی چیز کو حرام ٹھہرائے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے : (وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ) النحل: ١١٦ [کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کروکہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھ لو]۔
                ٢۔ اﷲتعالی اپنے بندوں کو کھانے پینے، پہننے ا وڑھنے، خرید وفرخت، لین دین اور دیگر معاملات میں ایسے مشتبہ امور کے ذریعہ آزماتا ہے جن کا حکم اکثر لوگوں کی نظر سے مخفی ہوتا ہے۔ یہ اﷲکی ایک حکمت ہے تاکہ ایک سچے مومن اور ایک خواہش پرست میں تمیز ہوجائے۔
                ٣۔ اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ شبہہ کی چیزوں کا حکم اکثر لوگ نہیں جانتے, جس کا مفہوم مخالف یہ نکلتا ہے کہ کچھ لوگ یعنی علم میں رسوخ رکھنے والے اس کاحکم جانتے ہیں, لہذا کوئی چیز مشتبہ صرف اسی شخص کے لئے ہے جس کے علم کی رسائی اس کے حکم تک نہیں, ورنہ درحقیقت کوئی چیز مشتبہ نہیں۔
                ٤۔ایک مسلمان ہمیشہ اپنی عزت وآبرو اور نیکنامی کی حفاظت کرتا ہے, اسے داغدار کرنے والی تمام چیزوں سے پرہیز کرتا ہے, اسی بنا پر وہ ایسی چیزوں سے بھی بچتا ہے جن کے حلال یا حرام ہونے میں شبہ ہو, تاکہ دین کوتاہی سے اور آبرو لوگوں کی عیب گیری سے محفوظ رہے, کیونکہ شبہات کا مرتکب زبان خلق سے محفوظ نہیں رہ سکتا, اور اگر زبان سے محفوظ رہ گیا تو کم از کم بدگمانیوں سے  نہیں بچ سکتا۔
                ٥۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انداز نہایت عمدہ اور بہترین تھا۔ آپ نے چراگاہ، مویشی اور چرواہے کی مثال دے کر معنی کو ذہنوں سے قریب کردیا۔
                ٦۔ اﷲ تعالی نے اپنی حرام کردہ چیزوں کی حدیں متعین کردی ہیں تاکہ مسلمان ان کے قریب نہ جائے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ( تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ) البقرة: ١٨٧  [یہ اﷲتعالی کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ] نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «اِجْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ»۔ «سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے اجتناب کرو», یعنی تم ایک جانب رہو اور یہ چیزیں دوسری جانب رہیں۔
                ٧۔ اعمال کی نیکی وبدی کا دار ومدار دل کے اصلاح وفساد پر ہے اسی لئے اﷲکے یہاں بروز قیامت حساب وکتاب دل کی نیتوں کے مطابق ہوگا۔ دنیا میں بھی ظاہر ی اصلاح باطنی اصلاح کی دلیل مانی جائے گی اور ظاہری فساد باطنی فساد کی دلیل, اسی لئے فرمایاکہ دل کے سدھرنے سے پورا جسم سدھر جاتا ہے, اور دل کے بگڑنے سے پورا جسم بگڑجاتا ہے۔
                ٨۔ایک مسلمان اپنے جسم کی صحت و تندرستی سے کہیں زیادہ اپنے دل کی تندرستی پر دھیان دیتا ہے۔ بغض وکینہ، نفرت وحسد، خیانت وفریب، شک ونفاق، کفر وتکبر اور غفلت وغیرہ جیسی معنوی بیماریوں سے دل کو پاک وصاف کرتا ہے۔ ذکر الہی اور کثرت استغفار سے اس کی سختی کو نرمی سے بدلتا ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق