الأحد، 22 يوليو 2012

مقدمہ امام نووی رحمہ اﷲ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ امام نووی رحمہ اﷲ

                ہر قسم کی حمد وثنا اﷲرب العالمین کے لئے جو آسمانوں اور زمینوں کا سنبھالنے والا، تمام مخلوقات کی تدبیر کرنے والا،قطعی دلائل اور واضح براہین کے ساتھ بندوں کی ہدایت اور دین وشریعت کی وضاحت کے لئے رسولوں کا بھیجنے والاہے۔ میں اس کی تمام نعمتوں پر اس کی حمد کرتا ہوں اور اس کے مزید فضل وکرم کا طالب ہوں۔ اور شہادت دیتا ہوں کہ واحد قہار اور کریم وغفار اﷲکے سوا کوئی لائق عبادت نہیں, اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمدe  اس کے بندے اور رسول ہیں، اس کے حبیب اور خلیل ہیں، مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ قرآن مجید عطا فرماکے آپ کو عزت بخشی گئی, جو صدیاں گذرنے کے باوجود ایک باقی رہنے والا معجزہ ہے، اور آپ کی احادیث اور سنتیں رشد وہدایت کے متلاشیوں کے لئے مینارۂ نور ہیں۔ آپ کو جامع کلمات اور آسان دین سے سرفراز فرمایاگیا۔ آپ پر اور تمام نبیوں اور رسولوں پر اﷲ کی سلامتی اور اس کی رحمتیں نازل ہوں, اور ہر ایک کے آل پر اور سارے نیک بندوں پر۔ أما بعد!
                طرق کثیرہ اورروایات متنوعہ کے ذریعہ علی بن ابی طالب,   عبداﷲبن مسعود، معاذ بن جبل، ابوالدرداء، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ اور ابوسعید خدری y  کی سندوں سے ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اﷲe نے ارشاد فرمایا: «جس نے میری امت کے لئے اس کے دین کے بارے میں چالیس احادیث محفوظ کردی, اﷲتعالی اسے بروز قیامت علماء اور فقہاء کی جماعت میں مبعوث فرمائے گا»۔ اور ایک روایت میں ہے کہ «اسے عالم اور فقیہ بنا کر مبعوث فرمائے گا»۔ اور ابوالدرداء t کی روایت میں ہے کہ«میں بروز قیامت اس کا سفارشی اور گواہ رہوں گا»۔ اور ابن مسعودt  کی روایت میں ہے: «اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہتے ہو داخل ہوجاؤ»۔ ابن عمر t کی روایت میں ہے: «اس کا نام علماء کی جماعت میں لکھا جائے گا اور شہداء کی جماعت میں اس کا حشر ہوگا»۔
                مذکورہ حدیث کی بہت سی سندیں ہونے کے باوصف حفاظ حدیث اس کے ضعیف ہونے پر متفق ہیں, لیکن علماء نے اس باب میں بے شمار تصنیفات کی ہیں۔ میرے علم کے مطابق سب سے پہلی تصنیف عبد اﷲ بن مبارک کی ہے، پھر عالم ربانی محمد بن اسلم طوسی کی، پھر حسن بن سفیان النسوی، ابوبکر آجُرّی، ابوبکر محمد بن ابراہیم اصفہانی، دار قطنی، حاکم، ابونعیم، ابو عبد الرحمن السلمی، ابوسعد المالینی، ابو عثمان الصابونی، محمد بن عبد اﷲ الأنصاری، ابوبکر بیہقی، اور ان کے سوا متقدمین ومتاخرین میں سے بے شمار لوگوں کی تصانیف ہیں۔
                ان ائمۂ اعلام اور حفاظ اسلام کی اقتدا کرتے ہوئے میں نے بھی چالیس احادیث جمع کرنے کے لئے اﷲتعالی سے استخارہ کیا نیز علماء اس بات پر متفق ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے[1]۔(حاشیہ ضرور دیکھیں)اس کے باوجود میرا اعتماد اس حدیث پر نہیں ہے بلکہ صحیح احادیث میں نبی e کے اس قول پر ہے: «تم میں سے حاضر لوگ غائب لوگوں تک پہنچادیں»۔ (متفق علیہ)
                نیز نبی e کے اس ارشاد پرہے کہ «اﷲتعالی اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، اسے یاد رکھا پھر جس طرح سنا تھا اسے پہنچادیا»۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن صحیح قرار دیا ہے)  
                کچھ علماء نے اصول دین کی چالیس حدیثیں جمع کی ہیں اور بعض نے فروع دین کی، کسی نے جہاد کے موضوع پر جمع کی ہیں اور کسی نے آداب کے, اور کسی نے خطبات جمع کئے ہیں, یہ سب نیک مقاصد ہیں, اﷲان کی کاوشیں قبول فرمائے۔
                میں نے ان سب سے زیادہ اہم ایسی چالیس احادیث جمع کرنے کا خیال کیا جو ان تمام موضوعات پر مشتمل ہوں, اور ہر حدیث دین کا ایک عظیم قاعدہ ہو,جس کے بارے میں علماء نے یہ فرمایا ہو کہ اس پر دین کا مدار ہے, یا وہ نصف اسلام یا ایک تہائی اسلام ہے, یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہی گئی ہو۔
                ہم ان تمام چالیس احادیث میں صحت کی پابندی کریں گے۔ واضح رہے کہ اکثر احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہیں۔ہم نے ان کی سندیں حذف کردی ہیں تاکہ انھیں یاد کرنے اور ان سے نفع اٹھانے میں باذن اﷲ سہولت ہو۔ہم پھر ایک مستقل باب میں مشکل الفاظ کی شرح کریں گے۔
                آخرت کی رغبت رکھنے والے ہر شخص کو ان احایث کا علم حاصل کرنا چاہئے, کیونکہ یہ بہت اہم امور پر مشتمل ہیں۔ جملہ اطاعت کے کاموں پر متنبہ کرنے والی ہیں۔ ذرا سا غور کرنے سے یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے۔
                اﷲ پر میرا اعتماد ہے۔ میں اسی کو اپنے امور سونپتا ہوں۔ اسی پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ہر قسم کی تعریف اسی کے لئے زیبا ہے۔ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ توفیق وعصمت اسی کی طرف سے ہے۔


[1] اﷲ تعالی امام نووی پر رحم فرمائے، انھوں نے فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے جواز پر علماء کا اتفاق نقل تو کردیا لیکن خود اس پر مطمئن نہیں ہیں, اسی لئے فرماتے ہیں کہ میرا اعتماد ان ضعیف احادیث پر نہیں بلکہ فلاں فلاں صحیح احادیث پر ہے, کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کے جواز میں علماء کا اتفاق ہے ہی نہیں۔ بہت سے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ کسی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں, خواہ وہ عقیدہ واحکام سے متعلق ہو یا فضائل اعمال سے۔ علامہ ابن حزم،علامہ ابن العربی اورامام خطابی وغیرہ کی یہی رائے ہے, اور یہی رائے سب سے زیادہ درست ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر حدیث فضائل اعمال کی ہو تو چند شرطوں کے ساتھ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ سخت ضعیف نہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی اصل عام کے تحت داخل ہو۔ (یعنی اس سے ثابت ہونے والا مسئلہ کسی اصل عام سے ثابت ہو)۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس پر عمل کرتے ہوئے یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ یہ نبی e سے ثابت ہے تاکہ آپ e کی جانب کوئی ایسی بات منسوب نہ ہوجائے جو آپ کی بات نہیں ہے بلکہ احتیاط کا عقیدہ رکھا جائے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق