الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٢)


حدیث (٣٢)

عن أبي سعيد -سعد بن سنان- الخدري -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ».
حديث حسن رواه ابن ماجه والدارقطني وغيرهما مسنداً، ورواه مالك في الموطأ مرسلاً عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم، فأسقط أبا سعيد، وله طرق يقوي بعضها بعضاً .
ترجمہ:
                ابو سعید خدری t سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «نہ(بلاوجہ) ضرر پہنچانا ہے اور نہ بدلے میں ضرر پہنچانا  ہے»۔
                (حدیث حسن ہے۔ ابن ماجہ اور دار قطنی وغیرہ نے مسنداً روایت کیا ہے, اور موطا میں امام مالک نے عمرو بن یحیی سے مرسلاً روایت کیا ہے۔مگر اس حدیث کی کئی سندیں ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں)۔
فوائد واحکام:
                ١۔یہ حدیث دین کا ایک اہم اصول بیان کرتی ہے, وہ یہ کہ شرعی طور پر ضرر کو ختم کردیا گیا ہے, لہذا کسی مسلمان کے لئے اپنے مسلمان بھائی کو کسی قسم کا ضرر پہنچانا جائز نہیں, خواہ قول وفعل سے ہو, یا ناحق اشارے سے, اور خواہ ضرر پہنچانے والے کو اس سے کوئی فائدہ ہورہا ہو, یا نہ ہورہا ہو۔ اگر کسی نے کسی کو کوئی ضرر پہنچایا تو بھی بدلہ میں ازخود ضرر پہنچانا جائز نہیں, بلکہ حاکم اور قاضی کے پاس معاملہ لے جانا چاہئے۔
                اس حدیث کے تحت بہت سے فقہی مسائل آتے ہیں جن میں سے چند کا ہم یہاں بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔
١) ایک پڑوسی کے لئے اپنی ملکیت میں کوئی ایسا عمل کرنا حرام ہے جس سے اس کے پڑوسی کو ضرر ہو؛ مثلاً اپنی زمین میں گڑھا کھودنے, یا حمام بنانے, یا چکی لگانے, یا تنور جلانے سے اگر پڑوسی کو ضرر پہنچ رہا ہے تو یہ اعمال حرام ہوں گے۔
٢) پڑوسی کی دیوار میں اس کی اجازت کے بغیر میخ گاڑنا یا طاق کھولنا حرام ہے۔
٣) اگر پڑوسی کے ساتھ کی مشترک دیوار گرجائے, یا چھت گرجائے, یا گرنے سے نقصان کا خطرہ ہو, تو دونوں کو مل کر اسے درست کرنا ہوگا, اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اسے ایسا کرنے کے لئے مجبور کیا جائے گا۔
٤) بیوی کو تنگ کرنا اور اسے تکلیف پہنچانا تاکہ وہ خود خلع لے لے حرام ہے۔
٥) بچہ کی وجہ سے بیوی شوہر کو, یا شوہر بیوی کو تکلیف پہنچائے, یا نقصان میں مبتلا کرے تو یہ عمل حرام ہے۔
٦) کسی وارث کی وجہ سے مورث کو نقصان پہنچانا, یا وصیت کرنے والے کا اپنی وصیت میں ضرر پہنچانا حرام ہے۔
                ٢۔ اسلام میں ضرر پہنچانا ممنوع ہے, اور اس کے مقابلے میں اچھے برتاؤ کا حکم آیا ہے۔ 

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق