الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٩)


حدیث (٣٩)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَال: «إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ لِيْ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ». حديث حسن رواه ابن ماجه والبيهقي وغيرهما.
ترجمہ:
                ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: «اللہ تعالی نے میرے لئے میری امت سے غلطی، بھول چوک اور جس پرانھیں مجبور کردیا جائے معاف کردیا ہے»۔ (حدیث حسن ہے، ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث بڑی نفع بخش اور اہم ہے, بلکہ اسے نصف شریعت کہا گیا ہے, کیونکہ انسان کا ہر چھوٹا بڑا عمل یا تو اس کے قصد و ارادہ اور اختیار سے صادر ہوگا, یا قصد واختیار کے بغیر ,یعنی غلطی، بھول چوک اور زور زبردستی سے ہوگا, اور یہ دوسری قسم معاف ہے, جبکہ پہلی قسم قابل مواخذہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث نصف شریعت ہے۔
                ٢۔ اﷲکی رحمت بہت وسیع ہے, چنانچہ اس نے بندوں سے سرزد ہونے والی خطاؤں، بھول چوک اور بوجہ مجبوری کی جانے والی چیزوں کو معاف کردیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ    ﯩ  ﯪ  ﯫ البقرة: ٢٨٦  [اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا]۔ حدیث میں ہے کہ اﷲتعالی نے فرمایا: میں نے ایسا کردیا ہے۔ نیز ارشاد ہے: ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ   ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ الاحزاب:٥ [تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو]۔ نیز ارشاد ہے: ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ    ﮃ  ﮄ  ﮅ   ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ      ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  النحل: ١٠٦  [جو شخص اپنے ایمان کے بعد اﷲسے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اﷲکا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے]۔
                ٣۔ غلطی اور بھول چوک کی پکڑنہیں ہے, لیکن اہل علم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ "اگر کوئی شخص بھول یا نادانی یا غلطی سے ایسا کام چھوڑدے جس کا حکم دیا گیا ہے تو اس کام کے دوبارہ کئے بغیر اس کی ذمہ داری ختم نہیں ہوگی۔لیکن اگر غلطی یا بھول یا نادانی کی بنا پر کوئی ایسا کام کرڈالے جس سے روکا گیا ہے تو اس کی عبادت مکمل ہوجائے گی, اور اسے دہرانا نہیں پڑے گا"۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے بھول کر طہارت کے بغیر صلاة ادا کرلی تو اس پر گناہ نہ ہوگا, لیکن اسے صلاة دہرانی پڑے گی, کیونکہ طہارت ایسا عمل ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی نے نادانی سے اس حالت میں صلاة پڑھ لی کہ اس کے کپڑے پر گندگی لگی ہوئی تھی, تو اس کی صلاة درست ہوگی, اور دہرانے کی ضرورت نہیں۔
                ٤۔ زبردستی کرائے گئے کسی کام پر پکڑ نہیں ہے سوائے ایک حالت کے, اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی شخص کو کسی بے گناہ کے قتل پر مجبور کرے ورنہ وہ خود قتل کردیا جائے گا, ایسی صورت میں اپنی جان بچاکر دوسرے بے گناہ کی جان لینا درست نہ ہوگا, لیکن اگر کسی نے ایسا کردیا تو جس نے زبردستی کی ہے اور جس سے زبردستی کی گئی ہے دونوں جرم میں اور قصاص میں شریک مانے جائیں گے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق