الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٥)


حدیث (٣٥)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم-: «لَا تَحَاسَدُوا, وَلَا تَنَاجَشُوا, وَلَا تَبَاغَضُوا, وَلَا تَدَابَرُوا, وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ, وَكُونُوا عِبَادَ اللّٰهِ إِخْوَانًا, اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ, لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ, اَلتَّقْوَىٰ هَاهُنَا - وَيُشِيْرُ إِلَىٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ - بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ, كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ؛ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: «باہم حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکہ میں ڈالنے کے لئے بھاؤ نہ بڑھاؤ، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، آپس میں اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کو بے سہارا نہیں چھوڑتا، اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقوی یہاں ہے اور اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ تین بار۔ آدمی کے برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ایک مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے, اس کا خون بھی, اور اس کی دولت اور عزت بھی»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ اس حدیث میں ایک پرامن اور مستحکم معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کی بنیادی اینٹوں کا ذکرکیا گیا ہے, نیز ان بداخلاقیوں سے منع کیا گیا ہے جو سماج کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
                ٢۔ حسد ایک بدترین اخلاقی مرض ہے، اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ حسد یہ ہے کہ انسان دوسرے پر اﷲکی نعمت کو ناپسند کرے, یا دوسرے سے اﷲکی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے۔
                حسد کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
١) اﷲکے فیصلہ سے ناراضگی۔ کیونکہ محسود کو ملی ہوئی نعمت اﷲکی طرف سے ہے، اس پر اگر کوئی اپنے بھائی سے حسد کرتا ہے تو گویا اﷲکی تقدیراور تقسیم پر راضی نہیں۔ لہذا اس کے ایمان وتقوی میں خلل اور نقص ہے۔
٢) حاسد اور محسود میں عداوت۔کیونکہ عداوت ودشمنی حسد کا لازمی نتیجہ ہے، بسا اوقات اس پر زیادتی بھی ہوجاتی ہے۔
٣) تنگدلی اور فکر وغم۔ کیونکہ محسود کو ملنے والی ہر نئی نعمت حاسد کے حسد کی آگ کے لئے نیا ایندھن ثابت ہوتی ہے, جس سے حاسد کے فکر وغم اور جلن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
٤) یہود ونصاریٰ کی مشابہت۔ حسد اﷲکی مخلوق میں سب سے خبیث اور خسیس قوم یہودیوں اور نصرانیوں کی صفت ہے جیسا کہ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ   ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘ  ﮙ   ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢﮊ البقرة: ١٠٩ [ان اہل کتاب(یہود ونصاری) کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پرتمھیں بھی ایمان سے ہٹادینا چاہتے ہیں]
                حسد کرنے سے یہود ونصاری کی مشابہت ہوتی ہے, اور نبی e نے فرمایا ہے: «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنهُمْ» (احمد وابوداود) جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے اس کا تعلق انھیں کے ساتھ ہے۔
٥) اﷲکے ساتھ بے ادبی۔ کیونکہ حاسد گویا اﷲکے فیصلہ پر راضی نہیں ہے۔
                حسد نے ہی ابلیس کو آدم کا سجدہ کرنے سے روکا، حسد نے ہی قابیل کو ہابیل کے قتل پر ابھارا، حسد نے ہی برادران یوسف کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ یوسف علیہ السلام جیسے عزیز اور معصوم بھائی کو اندھے کنویں میں پھینک دیں, اور اپنی دانست کے مطابق ان کی زندگی کا خاتمہ کردیں۔
                البتہ یاد رہے کہ حسد بعض حالات میں قابل تعریف بھی ہے, جسے رشک کہتے ہیں, یعنی انسان دوسرے کی نعمت کی طرح خود پانے کی تمنا توکرے مگر دوسرے پر اﷲکی نعمت کو ناپسند نہ کرے,  نہ ہی اس سے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرے۔ نبی e کا ارشاد ہے: «حسد صرف دو چیزوں میں درست ہے: ایک اس شخص سے جس کو اﷲنے مال سے نوازا ہو اور پھر حق کی راہ میں خرچ کرنے پر لگادیا ہو,  دوسرے اس شخص سے جس کو اﷲنے علم و حکمت عطا کی ہواور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو»۔ (متفق علیہ)
                ٣۔ نجش حرام ہے۔ نجش یہ ہے کہ جو شخص کوئی سامان خریدنا نہیں چاہتا وہ خریدار یا بائع میں سے کسی ایک کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے اس سامان کا بھاؤ بڑھادے۔ اس کے حرام ہونے کی حکمت یہ ہے کہ یہ سراسر فریب اور دھوکا ہے, نیز اس ہمدردی وخیر خواہی کے بھی خلاف ہے جسے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا گیا ہے۔
                ٤۔ آپس میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے بغض رکھنا حرام ہے, کیونکہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں, اور بھائی چارگی کا تقاضا آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہے, نہ کہ بغض ونفرت اور عداوت۔
                 اﷲتعالی نے مسلمانوں میں بغض وعداوت پیدا کرنے والی چیزوں کو حرام کردیا, اور ان کے درمیان الفت ومحبت پیدا کرنے والی چیزوں کا حکم دیا ہے۔ غیبت وچغلی اور لگائی بجھائی کو حرام کیا, کیونکہ اس سے باہمی رنجش پیدا ہوتی ہے۔ نبی e کا ارشاد ہے: «جنت میں چغلخور داخل نہیں ہوگا»۔ (متفق علیہ)نیز آپ e نے ارشاد فرمایا: «جب تین لوگ ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر دوآدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں کہ اس سے تیسرے کو غم ہوگا»۔ (متفق علیہ)
                 نبی e فرماتے ہیں: «اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک مومن نہ ہوجاؤ, اور مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں جب تم اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے۔ آپس میں سلام کو عام کرو»۔ (مسلم)
                ٥۔ اپنے کسی مسلمان بھائی سے پیٹھ پھیرنا اور تعلقات توڑناحرام ہے۔ نبی e کا ارشاد ہے: «کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت بند رکھے، دونوں ملاقات کریں تو ایک دوسرے سے منہ موڑلیں، ان دونوں میں زیادہ بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے»۔ (متفق علیہ)
                البتہ کسی فاسق اور گنہگار سے اس کی اصلاح کی خاطر تین دن سے زیادہ بات چیت بند کرنا جائز ہے بشرطیکہ بات بند کرنے میں مصلحت ہو۔ واللہ أعلم۔
                ٦۔ ایک مسلمان کی بیع پر دوسرے مسلمان کا بیع کرنا حرام ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجہ میں بغض وعناد اور نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص پچاس روپئے میں کوئی سامان خرید رہا ہے ایک دوسراآدمی اس خریدار سے جاکر کہے کہ میں چالیس روپئے میں تمھیں یہ سامان دے دوں گا, یا پچاس ہی روپئے میں اس سے بہتر دے دوں گا۔ اس بنا پر خریدار پہلے کے ساتھ اپنا معاملہ ختم کرکے دوسرے کے ساتھ معاملہ کرلے۔
                اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے پاس جائے, جس نے پچاس روپئے میں کوئی سامان بیچاہو, اس سے جاکر کہے کہ میں تم سے یہ سامان ساٹھ روپئے میں خرید لوں گا, اس بنا پر بیچنے والا پہلے کے ساتھ معاملہ توڑکر اس سے معاملہ کرلے۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں اور ان کی بکثرت نہی وارد ہوئی ہے۔
                ٧۔ حدیث میں ان امور کو اپنانے کی ترغیب ہے جس سے مسلمانوں میں الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے, اور ان کے دل یکجا ہوتے ہیں۔ زیارت، صلہ رحمی، صدقہ اور ہدیہ وغیرہ الفت ومحبت پیدا کرنے کے چنداہم وسائل ہیں۔
                ٨۔ اسلامی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کسی طرح کا ظلم نہ کرے, بلکہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے, اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرے، اس کو بے سہارا نہ چھوڑے بلکہ اس کے کام آئے، اسے حقیر نہ جانے بلکہ اس کی عزت وتکریم کرے۔
                ٩۔ تقوی دل میں ہوتا ہے اور اعضاء وجوارح سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر کوئی بندہ متقی ہوگا تو وہ اﷲکے احکامات کا پابند اور اس کی ممنوعات سے پرہیزگار ہوگا۔ کسی ظاہری گناہ پر ٹوکنے سے بعض لوگوں کا یہ جواب دینا کہ تقوی تو دل میں ہوتا ہے اور جب دل صاف ہو تو گناہ کا کوئی نقصان نہیں۔ یہ جواب کسی طرح درست نہیں, کیونکہ اگر دل صاف ہوگا تو اس کے اثرات اعضاء پر ضرور ظاہر ہوں گے۔
                ١٠۔ تقوی دل میں ہوتا ہے, اور اﷲکے یہاں رتبے تقوی سے متعین ہوتے ہیں, اس لئے بہت ممکن ہے کہ جسے لوگ کمزور یا غریب دیکھ کر حقیر جانتے ہیں اﷲکے یہاں عظیم رتبہ کا مالک ہو۔ارشاد باری ہے: ﮋ ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅﮊ الحجرات:١٣  [اﷲکے نزدیک تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے]۔
                ١١۔ مسلمان کا جان ومال اور اس کی عزت وآبرو محترم ہے۔ اﷲکے رسول e  کا ارشاد ہے: «بے شک تمھارے خون، تمھارے مال، اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں جیسے اس شہر(مکہ) میں، اس مہینہ (ذوالحجہ) میں آج کے دن(یوم النحر) کی حرمت ہے»۔ (متفق علیہ)
                جان میں خلاف احترام یہ ہے کہ قتل یا زخمی وغیرہ کرکے تجاوز کیا جائے۔ آبرو میں خلاف احترام یہ ہے کہ غیبت وچغلی، گالی گلوج، عیب جوئی تہمت تراشی یا آبروریزی وغیرہ کے ذریعہ تجاوز کیا جائے, اور مال میں خلاف احترام یہ ہے کہ چوری ڈکیتی، قرض لے کر انکار اور ناحق جھوٹا دعوی یا غصب یا رشوت وغیرہ لے کر تجاوز کیا جائے۔
                ١٢۔ اسلام عقائد وعبادات اور اخلاق ومعاملات کا مجموعہ ہے۔ وہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی خاطر ہر اچھے اخلاق کو پروان چڑھاتا اور ہر بداخلاقی سے جنگ کرتا ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق