الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٤)


حدیث (٣٤)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُوْلُ: «مَنْ رَأَىٰ مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ, وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابو سعید خدری t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ e کو ارشاد فرماتے سنا: «تم میں سے جو شخص کوئی منکر (برائی) دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے, اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے, اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے, اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث انکار منکرکے وجوب کی دلیل ہے۔ منکر (برائی) کا انکار ایک فريضہ اور ایمانی وصف ہے جس کی ادائیگی ہاتھ یا زبان یا دل سے حسب استطاعت ضروری ہے۔
                ٢۔ حدیث کے الفاظ سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص منکر کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اسی پر انکار لازم ہے, مگر چونکہ رؤیت علم کے معنی میں بھی آتا ہے اس لئے زیادہ راجح یہی ہے کہ یہ حدیث دیکھنے اور جاننے دونوں کو شامل ہے, لہٰذا  ہر اس شخص پر انکار منکر ضروری ہے جسے منکر کا علم ہو یا جس نے منکر کو دیکھا ہو۔
                ٣۔ انکار منکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ اگر طاقت ہو تو ہاتھ سے روکے؛ مثلاً حاکم اپنے محکوموں کو، آدمی اپنے گھر والوں کو، استاد اپنے طلبہ کو۔ انکارکے مفہوم میں اس منکر کو ختم کرنا، اس کے مرتکب کو تنبیہ، سزا کی دھمکی اور سزادہی وغیرہ سب داخل ہے۔
                ٤۔ انکار منکر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جسے ہاتھ سے انکار کی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان استعمال کرے، پند ونصیحت کرے, اور دنیاوی واخروی سزاؤں کا خوف دلائے۔چونکہ قلم بھی ایک زبان ہے اس لئے کسی برائی کے خلاف کتاب تصنیف کرنا، لٹریچر تحریر کرنا، اخبارت ومجلات میں مضامین لکھنا، اس منکر کے خطرات ونقصانات سے لوگوں کو خبردار کرنا, اور اس سے بچنے کے طریقے بتانا بھی زبان سے روکنے میں داخل ہے۔
                ٥۔ انکار منکر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ دل سے انکار کرے۔ دل سے انکار ہر مسلمان پر فرض ہے, کیونکہ یہ آخری درجہ ہے جس کے بعد کوئی درجہ نہیں۔بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔
                دل کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ اس منکر کو نا پسند کرے، اس کے وجود سے اس کو دلی تکلیف ہو, اور اس کی یہ نیت ہو کہ جب بھی زبان یا ہاتھ سے اس برائی کے ختم کرنے کا موقع ملے گا فوراً اپنی طاقت کے مطابق اسے ختم کرے گا۔
                ٦۔ ایمانی خصلتوں میں فرق مراتب ہے۔ ہاتھ سے انکار کرنے والا صرف دل سے انکار کرنے والے سے افضل واعلی ہے۔ ایک شخص اگر کوئی ایمانی کام اپنی عاجزی اور ناتوانی کی بنا پر انجام نہیں دے پاتا تو وہ اگر چہ گنہگار نہیں لیکن اس کی بہ نسبت وہ شخص افضل ہے جو وہ ایمانی کام انجام دے رہا ہے۔ اس اصول کی شریعت میں کئی مثالیں ہیں۔ایک مثال عورتوں سے متعلق وارد وہ حدیث ہے جس میں نبی e کا ارشاد ہے: عورتوں کے دین کی کمی یہ ہے کہ وہ (ہرمہینے) کئی دن اور کئی راتیں صلاة نہیں پڑھتیں۔ مراد حیض (ماہواری) کے ایام ہیں۔ جبکہ ان دنوں میں خود شریعت نے انھیں صلاة سے روک دیا ہے, اس کے باوجود اسے دین کی کمی بتایا گیا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ایک امیر اپنے صدقہ وخیرات کی بنا پر اس فقیر سے افضل ہے جو صدقہ وخیرات نہیں کرسکتا, گرچہ وہ صدقہ وخیرات نہ کرنے کی بنا پر گنہگار اور قابل ملامت  نہیں ہے۔ ﯚ  ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ  ﯟ
                ٧۔ انکار منکر کے چار حالات ہیں:
{     پہلی حالت یہ ہے کہ منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ پر معروف آجائے۔
{     دوسری حالت یہ ہے کہ منکر کم ہوجائے اگر چہ پوری طرح ختم نہ ہو۔
{     تیسری حالت یہ ہے کہ منکرتو ختم ہوجائے لیکن اسی جیسا دوسرا منکر اس کی جگہ لے لے۔
{     چوتھی حالت یہ ہے کہ منکر تو ختم ہوجائے لیکن اس کی جگہ پر اس سے بڑا منکر آجائے۔
پہلی دوحالتوں میں انکار مشروع ہے, تیسری حالت میں اجتہاد کی ضرورت ہے, اور چوتھی حالت میں انکار حرام ہے۔
                ٨۔ برائیوں کے انکار میں اگر مسلمان کوتاہی برتنے لگیں گے تو اس کا انجام نہایت بھیانک ہوگا۔ اﷲکی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق ہوجائیں گے۔ دنیا میں ہلاکت وبربادی ان کا مقدر ہوجائے گی, اور ایسی سزا سے دوچار ہوجائیں گے کہ دعائیں کرتے رہیں گے اور قبول نہیں ہوں گی۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق