الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث(٩)


حدیث(٩)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ صَخْرٍ - رَضِيَ الله تَعَالَىٰ عَنْهُ - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُوْلُ: «مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوهُ, وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ؛ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَثْرَةُ مَسَائِلِهِمْ وَاخْتِلَافُهُمْ عَلَىٰ أَنْبِيَائِهِمْ». رواه البخاري ومسلم.
ترجمہ:
                ابوہریرہ عبد الرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سنا: «میں جس چیز سے منع کردوں اس سے اجتناب کرو, اور جس چیز کا حکم دوں اس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو,  کیونکہ تم سے پہلے کی امتوں کو ان کے بہ کثرت سوالات اور اپنے نبیوں سے اختلاف نے تباہ کرڈالا»۔   (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی منع کردہ چیزوں سے ہرحال میں بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ اﷲاور اس کے رسول نے جن چیزوں سے روکا ہے اس میں بندوں ہی کی مصلحت ہے, اور اﷲتعالی اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے۔
                ٢۔ ہر روکی ہوئی چیز سے اجتناب فرض ہے؛ کیونکہ ارشاد ہے: «جس سے میں منع کردوں اس سے رک جاؤ»۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہی کا معاملہ امر سے سخت ہے؛ کیونکہ نہی میں کسی چیز کے ارتکاب کی رخصت نہیں دی گئی ہے, جبکہ امر میں استطاعت کی قید لگادی گئی ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ممنوعہ چیزوں کے اسباب ومقدمات تک سے بچنا ضروری قرار دیا گیا ہے؛ مثال کے طور پر اﷲتعالی کا ارشاد ہے:  ( وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا )  الاسراء: ٣٢ [زناکے قریب مت جاؤ]۔ پس زنا تک پہنچانے والی ہرچیز حرام ہے۔
                ٣۔ اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کی بجاآوری فرض ہے, جب تک کہ اس حکم کو استحباب کی طرف پھیر دینے والی کوئی دوسری دلیل نہ ہو۔
                ٤۔اسلام ایک آسان دین ہے، اس کے اندر ایک شخص کو شرعی اوامر واحکام کا اسی قدر مکلف کیا گیا ہے جتنی اس کے اندر قدرت واستطاعت ہے۔ اگر کوئی کسی حکم کو پورے طور پر ادا کرنے سے عاجز ہو، صرف اس کا بعض حصہ ادا کرسکتا ہو, تو اس کے لئے اپنی ممکن حد تک عبادت کی ادائیگی کافی ہے۔ مثال کے طور پروضو کی استطاعت نہ ہو تو تیمم کرلے۔ کھڑے ہوکر صلاة ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھے،بیٹھنے کی بھی استطاعت نہ ہو تو لیٹ کر, ورنہ اشارے سے پڑھ لے۔ وغیرہ
                ٥۔ اس حدیث سے بہ کثرت سوال کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے, خصوصاً اس وقت جب کہ وحی کا نزول ہورہا تھا, اور یہ امکان تھا کہ کسی کے سوال کی بناپر کسی حلال کو حرام کردیا جائے, اور کسی غیر واجب کو واجب کردیا جائے۔
                ممنوعہ سوالات کی بہت سی قسمیں ہیں: ایک تو یہ کہ ایسے غیبی امور سے متعلق سوال کیا جائے جس کا علم اﷲنے کسی کو نہیں دیا؛مثلاً قیامت کب آئے گی؟ یا قبر کے عذاب وآرام کی کیفیت کیا ہے؟ یا صفات باری کی کیفیت کیا ہے؟ صفات باری کی کیفیت سے متعلق سوال کا درست جواب یہ ہے کہ جس طرح اﷲکی ذات کسی ذات کے مشابہ نہیں ویسے ہی اس کی صفات کسی کی صفات کے مشابہ نہیں, اور ان کی کیفیت وحقیقت کو صرف اﷲہی جانتا ہے۔
                ایسے ہی وہ سوالات بھی منع ہیں جن کا مقصد تشدد، تعمق اور تنطع ہو۔ حدیث میں ہے: «هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ۔قَالَهَا ثَلاَثاً»۔ (مسلم) «غلو اور تکلف کرنے والے ہلاک ہوگئے»۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا۔
                ممنوعہ سوالات میں وہ فرضی سوالات بھی ہیں جو ابھی واقع نہیں ہوئے۔ سلف صالحین اس طرح کے سوالات سخت ناپسند کرتے تھے۔ البتہ دینی مسائل جاننے کے لئے کسی مسئلہ میں اﷲ اور اس کے رسول کا حکم معلوم کرنا ضروری ہے۔ ارشاد باری ہے:  (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ )  النحل: ٤٣ [پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو] اور حدیث میں ہے: «ان لوگوں کو جب(مسئلہ) معلوم نہیں تھا تو انھوں نے سوال کیوں نہیں کیا ؟ عاجز کا علاج سوال کرنا ہے»۔ (ابوداود)
                 طہارت وصلاة، صوم وزکاة، حج وعمرہ، خرید وفروخت اور نکاح وطلاق وغیرہ کے مسائل حاجت کے مطابق پوچھ کر کے سیکھنا فرض ہے۔
                ٦۔ بہ کثرت سوالات اور اپنے انبیاء کی مخالفت سابقہ امتوں کی ہلاکت کا سبب ہیں؛ لہذا مسلمانوں کو ان سے بچنا ضروری ہے۔ اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت دین ودنیا کے خسارے کا باعث ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے:  ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  ) النور: ٦٣ [سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں کوئی دردناک عذاب نہ پہنچے]

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق