الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٤٠)


حدیث (٤٠)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - بِمَنْكِبَيَّ فَقَالَ: «كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ». وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا يَقُوْلُ: «إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ. وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ». رواه البخاري.
ترجمہ:
                ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے میرے کندھے کو پکڑکر ارشاد فرمایا: «دنیا میں اس طرح رہو گویا پردیسی ہو یا راہ پار کرنے والے مسافر ہو»۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے: "جب شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرو,  جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرو,  اپنی صحت میں اپنی بیماری کے لئے کچھ کرلو, اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لئے کچھ کرلو"۔  (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔دنیا مومن کے دل لگانے کی جگہ نہیں کہ سکون سے وہیں کا ہوکے رہ جائے, بلکہ دنیا تو منزل سے پہلے وہ مختصر پڑاؤ ہے جہاں مسافر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرتا ہے, اور آگے جانے کے لئے ہمہ تن تیار رہتا ہے۔ ارشاد ہے: ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ    ﯣ  ﯤ غافر: ٣٩ [اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے، یقین مانو کہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے]۔
                نبی e نے ایک بار فرمایا: «مجھے دنیا سے کیا مطلب، میری مثال تو اس سوار کی ہے جس نے کسی درخت کے سایہ میں قیلولہ کیا, اور پھر اسے چھوڑ کر چلتا بنا»۔(ابن ماجہ، ترمذی)
                ٢۔تعلیم دینے کا ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ معلم اپنی بات کہنے سے پہلے طالب علم کی توجہ اپنی طرف موڑلے، نبی e نے ابن عمر t کے دونوں کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے انھیں اپنی طرف متوجہ کرکے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
                ٣۔ اپنے نفس کا محاسبہ انتہائی ضروری ہے کہ اس سے اﷲ کے حقوق میں کتنی کوتاہی ہوئی ہے اور بندوں کے حقوق میں کتنی ؟ کیونکہ اسی سے حالات درست ہوسکتے ہیں, اور دنیا کی طرف میلان ختم کرکے عبادت واطاعت میں لگا جاسکتا ہے۔
                ٤۔ موت سے قبل مہلت حیات کو اور بیماری سے قبل تندرستی کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ جب تک آدمی تندرست ہوتا ہے کشادہ دلی اور اطمینان خاطر کے ساتھ اﷲکی عبادت کرتا ہے, لیکن بیماری کی حالت میں عبادات میں گرانی محسوس ہونے لگتی ہے, لیکن یاد رہے کہ اگر وہ ان عبادات کا صحت کی حالت میں عادی تھا تو بیماری کی حالت میں اس کا وہی اجر لکھاجائے گا۔ نبی e کا ارشاد ہے: «جب بندہ بیمار پڑتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لئے وہی عمل لکھاجاتا ہے جسے وہ تندرستی اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا»۔ (بخاری)
                ایسے ہی موت کے ذریعہ انسان کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے, اور جب انسان اور عمل کے درمیان موت رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجاتی ہے تو انسان دنیا کی طرف واپس آنے کی تمنا کرنے لگتا ہے, تاکہ اسے عمل کا دوبارہ موقع مل سکے, لیکن اب حسرت وندامت کے سوا چارہ نہیں۔ ارشاد باری ہے: ﮨ  ﮩ   ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ   ﮯ    ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ   ﯖﯗ  ﯘﯙ  ﯚ  ﯛ      ﯜ  ﯝﯞ  ﯟ  ﯠ    ﯡ  ﯢ  ﯣ    ﯤ  ﯥ  المؤمنون: ٩٩ – ١٠٠ [یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار ! مجھے واپس لوٹادے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پیچھے تو ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک حجاب ہے]۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق