الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٤)


حدیث (٤)

عَنْ أَبِيْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ - قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوْقُ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِيْ بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِيْنَ يَوْمًا نُطْفَةً، ثُمَّ يَكُوْنُ عَلَقَةً مِثْلَ ذٰلِكَ، ثُمَّ يَكُوْنُ مُضْغَةً مِثْلَ ذٰلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيْهِ الرُّوْحَ، وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: بِكَتْبِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيْدٌ. فَوَاللهِ الَّذِي لَا إِلٰهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّىٰ مَا يَكُوْنُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّىٰ مَايَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا». رواه البخاري ومسلم.
ترجمہ:
                ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی، آپ سچے بھی ہیں اور آپ کی سچائی تسلیم بھی کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: «تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں جمع رکھا جاتا ہے, پھر اتنے ہی دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے, پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے, پھر اس کی طرف فرشتے کو بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے, اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ؛ رزق، مدت عمر، عمل اور نیک بخت ہے یا بد بخت۔ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں, تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت اور اس کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے, تو اس کی کتاب (تقدیر) آگے بڑھ جاتی ہے اور وہ جہنم والوں کا عمل کرنے لگتا ہے پھر جہنم میں چلا جاتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کرتا رہتا ہے, یہاں تک کہ جہنم اور اس کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے, پھر اس کی کتاب(تقدیر) آگے بڑھ جاتی ہے اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے, پھر جنت میں داخل ہوجاتا ہے»۔   (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ ماں کے پیٹ میں بچہ کی تخلیق کئی مراحل سے گذرتی ہے۔ چالیس دن نطفہ کی شکل میں، پھر چالیس دن خون کے لوتھڑے کی شکل میں، پھر چالیس دن گوشت کی بوٹی کی شکل میں۔ ایک سو بیس دن مکمل ہونے کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔
                ٢۔ بچہ کی تخلیق کا ان مراحل سے گذرنا اﷲعزوجل کی حکمت سے ہے۔
                ٣۔ پیٹ کے بچہ کی تقدیر لکھنے کے لئے اﷲکی جانب سے ایک فرشتہ مقرر ہے۔
                ٤۔ پیٹ کے بچہ پر ایک سو بیس دن گذر جانے کے بعداسقاط جائز نہیں؛ کیونکہ اتنے دنوں کے بعد اس کے جسم میں جان ڈال دی جاتی ہے, اور کسی جان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔البتہ اس سے پہلے اسقاط کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے, مگر زیادہ راجح یہی ہے کہ وہ بھی جائز نہیں، ہاں! اگر اس کے اسقاط میں کوئی شرعی مصلحت ہے یا اسقاط نہ کرنے میں ماں پر ضرر ہے تو حرج نہیں۔
                ٥۔ روح پھونکے جانے کے بعد جو بچہ پیٹ سے گرجائے اس کو غسل دیا جائے گا, اس کی تکفین وتدفین کی جائے گی, اور اس پر صلاة جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔روح پھونکے جانے سے پہلے اسقاط کا یہ حکم نہیں ہے۔
                ٦۔ انسان کی تقدیر اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہے، اسے تقدیر عمری کہتے ہیں۔ اس سے قبل لوح محفوظ میں لکھی جاچکی ہے، اسے تقدیر ازلی کہتے ہیں۔ ہر سال شب قدر میں بھی تقدیر لکھی جاتی ہے، اسے تقدیر حولی کہتے ہیں۔
                ٧۔ تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اﷲکے تقسیم کردہ رزق پر راضی رہے؛ کیونکہ وہی اس کی قسمت میں ہے, اور اس رزق کی تکمیل کے بغیر اس کی موت نہیں ہوسکتی۔آدمی دوسروں کی دولت پر نظر نہ رکھے,  نہ ہی بلا ضرورت کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے, بلکہ روزی کمانے کے اسباب وذرائع کو اختیار کرے۔نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «جو پاکدامنی چاہتا ہے اﷲتعالی اسے پاکدامن رکھتا ہے, اور جو بے نیازی چاہتا ہے اﷲتعالی اسے بے نیاز کردیتا ہے»۔ (متفق علیہ)
                ٨۔ ہر انسان کی موت اسی وقت سے مقدر ہے جبکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا کہ وہ کس ساعت اور کس ملک میں مرے گا۔
                ٩۔ ہر انسان کا عمل اور انجام دونوں مقدر ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی سوال صحابۂکرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: «عمل کرو؛ کیونکہ ہر شخص کے لئے وہی راستہ آسان ہوگا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے, اگر نیک بخت ہے تو نیک بختوں کا عمل اس کے لئے آسان ہوگا, اور اگر بدبخت ہے تو بدبختوں کا  عمل»۔ (متفق علیہ)
اگر آپ اپنے دل میں اﷲکی اطاعت وفرماں برداری کی رغبت پارہے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے, اور اگر اس کے برخلاف کوئی اور حالت ہے تو جلد از جلد اپنے دل کا علاج کریں۔
                ١٠۔ قسم کا مطالبہ کئے بغیر قسم کھانا جائز ہے۔ حدیث میں جس بات پر قسم کھائی گئی ہے وہ ایک غیبی چیز تھی, اس لئے قسم کے ذریعہ اس کی تاکید کی ضرورت تھی۔
                ١١۔ حدیث سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات انسان نیک عمل کرنے کے باوجود موت سے پہلے توفیق سے محروم ہوکر جہنم رسید ہوجاتا ہے لیکن صحیحین ہی کی ایک دوسری حدیث سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس میں ہے کہ« انسان لوگوں کے دیکھنے میں جنتیوں کا سا عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور آدمی لوگوں کے دیکھنے میں جہنمیوں کا سا عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے»۔ (لوگوں کے دیکھنے میں) کہنے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ باطن کچھ اور تھا, اور اسی باطنی خفیہ خرابی کی بنا پر اس کا یہ برا انجام ہوا۔
                ١٢۔اس حدیث سے ایک مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتا رہے، سدا اپنے دل کو پاک وصاف رکھے ,پوشیدہ گناہوں سے دور رہے کہ ان کا نتیجہ بہت بھیانک ہے۔ساتھ ہی اﷲتعالی سے دین پر ثابت قدمی کی دعا کرتا رہے: «يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلَیٰ دِيْنِكَ» (صحیح الجامع) (اے دلوں کے پھیرنے والے اپنے دین پر ہمارے دلوں کو جمادے)۔
                ١٣۔ جس رب نے ایک انسان کو مختلف مراحل سے گذارتے ہوئے دنیوی زندگی عطا فرمائی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا کرنا اس کے لئے بہت آسان ہے؛ لہذا انسان کو اس رب کے سامنے حاضری کا وقت کبھی فراموش نہ کرنا چاہئے۔
                ١٤۔ اس حدیث میں راہ حق سے منحرف افراد کے لئے ترغیب موجود ہے کہ وہ اپنی روش کی جلد اصلاح کرلیں، اﷲکی طرف رجوع ہوجائیں، اﷲکا خوف کریں, گناہوں سے باز آئیں، گناہوں کی کثرت کے باوجود اﷲسے امید نہ توڑیں، مایوس نہ ہوں, بلکہ اپنے رب سے اچھا گمان رکھیں؛ کیونکہ اﷲتعالی اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق ہی معاملہ کرتا ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق