الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٧)


حدیث (٢٧)

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ - رضي الله عنهما - عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ, وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ». رواه مسلم.
وعَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ - رضى الله تعالى عنه - قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: «جِئْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ؟»  قُلْتُ: نَعَمْ ؛ قَالَ: «اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ؛ اَلْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ، وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ، وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ».
قال الشيخ - رحمه الله - حديث حسن، رويناه في مسندي الإمام أحمد بن حنبل، و الدارمي بإسناد حسن .
ترجمہ:
                نواس بن سمعان t  نبی e سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: «نیکی حسن اخلاق کا نام ہے, اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے اور اس پر لوگوں کا مطلع ہونا تمھیں ناگوار ہو»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
                اور وابصہ بن معبدt  کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ e کے پاس آیا۔ آپ eنے فرمایا: «تم نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرنے آئے ہو؟» میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: «اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس مطمئن ہو اور جس پر دل پُرسکون ہو, اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور سینہ میں تردد پیدا کرے, اگر چہ لوگ تمھیں فتوی دیں، اگر چہ لوگ تمھیں فتوی دیں»۔  (حدیث حسن ہے۔ مسند امام احمد اور مسند امام دارمی میں بہ سند حسن مروی ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ حسن اخلاق بڑی فضیلت والی چیز ہے کہ اسے ہی نبی e نے نیکی قرار دیا۔حسن اخلاق میں وہ تمام فضائل ومکارم داخل ہیں جن کی طرف قرآن عظیم نے دعوت دی ہے, اور جن کو اپناکر رسول اﷲe نے ہمارے لئے اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے۔ رسول اکرم e کا جیسا معاملہ اﷲکے ساتھ تھا اور جیسا کچھ اﷲ کے بندوں کے ساتھ تھا وہی اخلاق کا اعلی نمونہ ہے؛ کیونکہ آپ e اخلاق کے سب سے بلند مرتبہ پر فائز تھے۔
                ٢۔ گناہ کا پیمانہ یہ ہے کہ اس سے دل میں تنگی و بے چینی اور قلق واضطراب پیدا ہوتا ہے, اس کے برخلاف نیکی پر انسان کا ضمیر مطمئن اور اس کا دل پرسکون ہوتا ہے۔
                ٣۔ مومن کو ہمیشہ اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس کے عیوب کی اطلاع نہ ہو, اس کے برخلاف فاسق وفاجر لاپرواہ ہوتا ہے, بلکہ بسا اوقات جرأت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لوگوں کے سامنے علانیہ جرائم کرتا ہے, اور ان کی تنقید وعیب گیری سے اس کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں پڑتا, اور بعض کی ڈھٹائی، بدبختی و بے حیائی تو یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر فخر کرتے ہیں۔
                ٤۔ آدمی شبہہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ایسے کام کرے جو شک سے پاک ہوں، شبہات میں پڑنے سے انسان حرام میں بھی جاپڑتا ہے۔
                ٥۔ جس عمل کے مباح وجائز ہونے کی شرعی دلیل موجود ہو تو دل مطمئن ہو یا نہ ہو دلیل پرچلنا ضروری ہے؛ کیونکہ دل کی بے قراری کے اسباب شبہ کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سفر میں صوم توڑنے اور چار رکعتوں والی صلاتوں کو دو رکعتیں پڑھنے کی اجازت ہے, بسا اوقات لوگوں کا دل اس پر مطمئن نہیں ہوتا, لیکن چونکہ شرعی دلیل واضح طور پر موجود ہے اس لئے اپنے نفس کی مخالفت کرکے اتباع دلیل واجب ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر کعبہ پہنچنے سے پہلے ہی نبی e نے صحابۂ کرام کو قربانی کرلینے اور احرام کھول دینے کا حکم فرمایا, صحابہ کو ناگوار ہوا, لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس پر عمل کیا, اور ان کے لئے اسی میں ہر طرح کی بھلائی اورسعادت پنہاں تھی۔
                ٦۔ حدیث سے دل کا مقام ومرتبہ واضح ہوتا ہے۔ اگر دل کے اندر ایمان واستقامت جاگزیں اور پختہ ہوجائے تو شبہات کے مواقع پر اس کا فیصلہ درست ہوتا ہے, اور نیکی وبدی میں اس کے فیصلہ سے تمیز کی جاسکتی ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق