الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٣)


حدیث (٢٣)

عَنْ أَبِي مَالِكٍ الحَارِثِ بنِ عَاصِم الْأَشْعَرِيِّ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «اَلطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ تَمْلَأُ الْمِيْزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ تَمْلَآنِ - أَو تَمْلَأُ - مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَو عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَو مُوبِقُهَا». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابو مالک اشعری t  کا بیان ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «طہارت نصف ایمان ہے, اور الحمد للہ میزان کو بھر دے گا, اور سبحان اللہ اور الحمد للہ یہ دونوں آسمان وزمین کے درمیان (کی وسعتوں) کو بھر دیں گے, صلاة نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر روشنی ہے، قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف, ہر شخص صبح کرتا ہے تو اپنے نفس کو بیچ کر یا آزاد کرلیتا ہے یا ہلاک کرلیتا ہے»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ بہت عظیم حدیث ہے، اسلام کی ایک بنیاد ہے اوردین کے بہت سے اہم قواعد پر مشتمل ہے۔
                ٢۔ طہارت کی بڑی فضیلت ہے۔ اسے نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ شرک وبدعت اور گناہ ومعصیت سے نفس کی پاکی, اور غلاظت وگندگی سے بذریعہ غسل ووضو جسم کی پاکی, یعنی قلبی اور جسمانی دونوں قسم کی طہارت اس حدیث کے مفہوم میں داخل ہے۔
                ٣۔ الحمد ﷲ اور سبحان اﷲ کے ذریعہ اﷲ کا ذکر نے میں بے شمار اجر وثواب ہے؛ کیونکہ الحمدﷲ میں اﷲکے لئے تمام اوصاف کمال کا اثبات اور ہر ظاہر ی وباطنی نعمت پر شکر گذاری پائی جاتی ہے, اور سبحان اﷲ میں ہرنقص وعیب اور مخلوق کی مشابہت سے تنزیہہ وتقدیس کا اعتراف ہے۔
                ٤۔ حدیث میں صلاة کو نور کہہ کرصلاة کی عظمت واہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ صلاة کے ذریعہ دل میں نور پیدا ہوتا ہے، چہرے پہ نور ہوتا ہے، قبر اور حشر ونشر میں نور ہوگا، پل صراط پر نور ہوگا۔ نبی e  کا فرمان ہے: «جس نے صلاة کی پابندی کی اس کے لئے بروز قیامت نور ودلیل اور نجات ہوگی, اور جس نے صلاۃ کی پابندی نہیں کی اس کے لئے نہ ہی نور ہوگی, اور نہ ہی دلیل اور نجات»۔ (مسند احمد)
                ٥۔ بہ رضا ورغبت صدقہ وخیرات کرنا برہان ہے؛ یعنی صدقہ دینے والے کے ایمان کی صداقت پر دلیل وبرہان ہے, کیونکہ اس نے اپنے رب کی رضا وخوشنودی کے لئے اپنا محبوب مال خرچ کیا۔ اس میں فرض زکاة بھی داخل ہے اور نفلی صدقات بھی۔ صدقہ وخیرات کی فضیلت میں بہ کثرت احادیث آئی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ «جس دن بھی بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ایک کہتا ہے: اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما، دوسرا کہتا ہے: اے اﷲ! سمیٹ کر رکھنے والے کو بربادی عطا فرما»۔(متفق علیہ)
                ٦۔ صبر کو ضیاء کہا گیا ہے۔ ضیاء عربی میں سورج کی روشنی کو کہتے ہیں, جس میں ایک قسم کی تپش اور سوزش ہوتی ہے, چونکہ صبر میں بھی نفس پر مشقت اور گرانی ہوتی ہے, اور نفس کی مرضی اور خواہش کے خلاف جبر کرنا ہوتا ہے, اس لئے اسے ضیاء سے تعبیر کیا گیا۔
                اﷲتعالی نے صبر کا حکم دیا ہے, اور صبر کرنے والے کو بے حساب اجر وثواب دینے اور جنت کی نعمتیں عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔
                صبر کی تین قسمیں ہیں: Àاﷲکی اطاعت پر صبر، Áاﷲکی معصیت سے صبرÂاللہ کی قضاوقدر پر صبر۔  
اﷲکی اطاعت پر صبر یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اﷲکے احکام کی پابندی پراس طرح لگادے کہ اطاعت گراں نہ گزرے۔ اﷲکی معصیت سے صبر یہ ہے کہ اﷲکی رضا کی خاطر اپنے آپ کو گناہوں اور نافرمانیوں سے باز رکھے۔ قضاوقدر پر صبر یہ ہے کہ جان ومال اور اہل وعیال میں کیسی بھی مصیبت پڑے, نہ ہی دل میں کسی طرح اﷲکی تقدیر پر غصہ اور شکایت آنے دے, اورنہ ہی ہاتھ یا زبان سے کوئی ایسی حرکت کرے جس سے تقدیر پر ناراضگی کا پتہ چلتا ہو, اور اس بات کا یقین رکھے کہ جو مصیبت اس پر آپڑی ہے ٹل نہیں سکتی  تھی, اور جو مصیبت ٹل گئی ہے پڑ نہیں سکتی تھی, اور اﷲسے اجر وثواب کی امید رکھے۔ اﷲکے رسول e  کا فرمان ہے کہ «مومن کا معاملہ عجیب ہے اس کی ہر ہر حالت میں خیر ہے, اور یہ بھلائی صرف مومن کو حاصل ہے۔ اگر اسے نعمت ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے, اور یہ اس کے حق میں بہتر ہے, اور اگر مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے, اور یہ اس کے حق میں بہتر ہے»۔ (مسلم)
                ٧۔ قرآن پاک اپنے عامل اور متبع کے لئے حجت ہے, قیامت کے دن اس کے لئے سفارشی بن کے آئے گا, لیکن اپنے سے منہ موڑنے والے اور عمل نہ کرنے والے کے خلاف حجت ہے, اسے جہنم کی طرف لے جائے گا۔ سلف صالحین میں سے کسی کاقول ہے: "جو بھی قرآن مجید کے ساتھ بیٹھا یا تو نفع لے کے اٹھا یا خسارہ کرکے اٹھا"۔ ارشاد باری ہے: ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ   ﮪ  ﮫﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ ﮰ  ﮱ الاسراء:٨٢ [یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے, ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی]۔
                ٨۔ سارے لوگ صبح کرکے محنت ومشقت میں لگ جاتے ہیں, لیکن کسی کی مشقت اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے, اور کسی کی مشقت اسے نجات کی طرف لے جاتی ہے۔ جو شخص اﷲکے حکم کے مطابق کدوکاوش کرتا ہے وہ اپنے آپ کو اﷲکے عذاب سے بچالیتا ہے, اور جو شخص اس کے برخلاف شیطانی راہوں پر گامزن ہوتا ہے، اﷲکے غضب کو دعوت دینے والے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے, وہ ذلیل ہوکر ہلاکت میں جا پڑتاہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق