الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (١٨)


حدیث (١٨)

عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ جُنْدُبِ بْنِ جُنَادَةَ الْغِفَارِيْ وَأَبِيْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - عَنْ رَسُولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: (اِتَّقِ اللّٰهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ». رواه الترمذي وقال: حديث حسن. وفي بعض النسخ: حسنٌ صحيح.
ترجمہ:
                ابوذر اور معاذ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «اللہ سے ڈرتے رہو جس جگہ بھی رہو، برائی کے بعد نیکی کرلو نیکی برائی کو مٹادے گی،  اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا معاملہ کرو»۔  (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے, بعض نسخوں کے مطابق حسن صحیح قراردیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ بہت عظیم حدیث ہے۔ اس کے اندر حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔تقوی کا حکم دے کر اﷲ کا حق ذکر کردیا گیا ہے اور اچھے اخلاق کا ذکر کرکے بندوں کاحق۔درمیان میں کوتاہیوں کی تلافی کا نسخہ بتادیا گیا ہے۔
                ٢۔ تقوی یہ ہے کہ آدمی اپنے اور عذاب الہی کے مابین بچاؤ کا سامان کرلے, بایں طور کہ احکام کی پابندی کرے اور ممنوعات سے دور رہے۔ تقوی تمام اگلے اور پچھلے لوگوں کے لئے اﷲکی وصیت ہے۔ ارشاد ہے: ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ   ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪالنساء:١٣١  [اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اﷲسے ڈرتے رہو]۔ نیز ہر رسول اپنی قوم سے یہی کہا کرتے تھے: ﭜ  ﭝ  ﭞ العنكبوت: ١٦ [اﷲ ہی کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو]۔ سلف صالحین بھی باہم اسی کی وصیت اور تاکید کیا کرتے تھے۔
                ٣۔ تقوی، اﷲکا ڈر اور اﷲکی نگرانی کا احساس خلوت و جلوت ہرجگہ مطلوب ہے۔ جہاں لوگوں کی نظر پڑرہی ہو اور جہاں لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوں، جس حالت میں ہوں, جس جگہ ہوں، کھلے اور چھپے ہرجگہ اﷲسے ڈرتے رہنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ آدمی اﷲکے ساتھ اگر اپنا معاملہ درست کرلے تو اﷲتعالی مخلوقات کے ساتھ اس کے معاملات کو درست کردے گا, لیکن اگر کوئی بدنصیب اﷲکو ناراض کرکے لوگوں میں قابل تعریف بننا چاہتا ہے, تو اﷲبھی اس سے ناراض ہوجاتا ہے اور تعریف کرنے والے بھی ایک مدت بعد اس کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔ دراصل تنہائی میں اﷲکی نگرانی اور اس کے ڈر کا احساس ختم ہوجانا دل کی ایک بیماری ہے, اسی لئے قرآن مجید میں اسے منافقین کی ایک صفت  قرار دیا گیا ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے کہ منافقین لوگوں سے اپنا حال چھپاتے ہیں لیکن اﷲسے نہیں چھپاتے, اور اﷲسے کوئی چیز کہاں چھپ سکتی ہے کہ اس سے کائنات کا کوئی ذرہ مخفی نہیں۔
                ٤۔ یہ بات یقینی ہے کہ بندے سے تقوی کے تقاضوں کی تکمیل میں ضرورکوتاہی ہوجاتی ہے, اس لئے اس ذریعہ کی طرف اشارہ کردیا گیا جس سے اس کوتاہی کا ازالہ کیا جاسکے، فرمایا: «گناہ کے بعد نیکی کرلو نیکی اسے مٹادے گی»۔ نیکی سے توبہ بھی مراد ہوسکتی ہے, اور بے شک توبہ اگر خالص ہو تو وہ گناہ کے مٹانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے, اور نیکی سے عام نیکیاں بھی مراد ہوسکتی ہیں،ارشاد ہے: ﮱ   ﯓ  ﯔ  ﯕ هود:١١٤  [یقینا نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔]
                جن نیکیوں کو حدیث میں گناہوں کا کفارہ قرار دیاگیا ہے ان میں سے ایک صلاة ہے، حدیث میں اسے گھر کے سامنے بہنے والے ایک نہر سے تشبیہ دی گئی ہے, جس میں آدمی روزانہ پانچ بار غسل کرتا ہو,جس سے اس کے میل کچیل صاف ہوجاتے ہوں, یہی مثال صلاة کی ہے, وہ اسی طرح گناہوں کو دھودیتی ہے۔ (متفق علیہ)
                صلاة پنجوقتہ، صوم رمضان، قیام اللیل، حج وعمرہ بھی گناہوں کا کفارہ ہیں, انسان وحیوان بلکہ تمام مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک، عفووکرم، مصیبتوں میں کام آنا، تنگدستی میں امداد وتعاون کرنا وغیرہ بھی گناہوں کا کفارہ ہیں۔ ایسے ہی جسم کو لگنے والی بیماری، مال کو پہنچنے والی مصیبت, اور اولاد پر آنے والی آفت بھی گناہوں کا کفارہ ہے۔
                ٥۔ نیکیوں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں بشرطیکہ وہ صغیرہ گناہ ہوں کیونکہ کبیرہ گناہ کے لئے توبہ کرنا ضروری ہے۔
                ٦۔ حدیث میں حسن اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ حسن اخلاق یہ ہے کہ ہرایک کے ساتھ اس کے شایان شان معاملہ کیا جائے۔ دوسروں کے لئے وہی پسند کیا جائے جو خود اپنے لئے پسند کیا جائے, اور جو خود اپنے لئے ناپسند ہو وہ دوسروں کے لئے بھی ناپسند ہو۔ دوسروں کے ساتھ بھلائی، عفووکرم اور سخاوت وفیاضی کا معاملہ کیا جائے۔ ان کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں پر صبر کیا جائے، کسی کو ضرر اور اذیت نہ پہنچائی جائے، ملاقات کے وقت مسکراتے ہوئے اور چہرے پر شگفتگی بکھیرے ہوئے ملاجائے۔
                «حسن اخلاق قیامت کے دن میزان میں سب سے زیادہ وزنی چیز ہوگی»۔ (ترمذی) اور «حسن اخلاق والا بروز قیامت نبی e کو سب سے زیادہ محبوب اور آپ سے قریبی نشست پانے والا ہوگا»۔ (ترمذی) «جوشخص سب سے زیادہ حسن اخلاق کا مالک ہے وہ سب سے زیادہ ایمان میں کامل ہے»۔ (صحیح الجامع) «حسن اخلاق کی بدولت ایک مومن کو صائم وتہجد گذار کا درجہ مل جاتا ہے»۔ (ابوداود، ابن ماجہ)
                ٧۔ حسن اخلاق اتباع رسول سے حاصل ہوگا, کیونکہ آپ e اخلاق کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ آپe کا اسوۂ حسنہ جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں ہے اخلاق میں بھی ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق