الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٦)


حدیث (٣٦)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة -رضي الله عنه- عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ, وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ, وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ, وَاللّٰهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ, وَمَنْ سَلَكَ طَرِيْقًا يَلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللّٰهُ لَهُ بِهِ طَرِيْقًا إِلَى الْجَنَّةِ, وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللّٰهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِيْنَةُ, وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ, وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ, وَذَكَرَهُمْ اللّٰهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ, وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ». رواه مسلم بهذا اللفظ.
ترجمہ:
                ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی e نے ارشاد فرمایا: «جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی اللہ تعالی بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا۔اور جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی اللہ تعالی دنیا وآخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالی بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔  اور جو علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلا اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور جب کوئی قوم اللہ کے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوتی ہے, اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتی ہے, اور اسے آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے, تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے, ان کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے, اور فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں, اور اللہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں ان کا ذکرکرتا ہے۔ جس کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جاسکتا۔ (اسے ان الفاظ کے ساتھ امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث بہت سارے علوم وقواعد اوراصول و آداب پر مشتمل ہے۔اس میں اسلامی اخوت کے تقاضوں کی ادائیگی، علم حاصل کرنے اور قرآن مجید کے فہم وتلاوت، اس پر عمل اور اس کی نشر واشاعت پر ابھارا گیا ہے۔
                ٢۔ مشکلات میں اپنے کسی مومن بھائی کے کام آنے کی بڑی فضیلت ہے, خواہ وہ مالی اور معاشی مشکلات ہوں, یاذہنی اور نفسیاتی الجھنیں، سماجی پریشانیاں ہوں یا کچھ اور، جو ان سختیوں کو ختم کرے گا اﷲتعالی قیامت کے دن کی سختیوں سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔
                ٣۔حدیث میں تنگدست پر آسانی کرنے کی ترغیب ہے۔ اس کی کئی شکلیں ہیں:ایک تو یہ ہے کہ قرضدار کو فراخی آنے تک مہلت دے، دوسری صورت یہ ہے کہ قرض معاف کردے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مزید مالی تعاون کرے, نیز صبر وشکر کے اجرو ثواب کی خوشخبری سناکر اسے تسلی دے۔
                ٤۔ حدیث سے مسلمانوں کی عیب پوشی کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ وہ عیوب خواہ شکل وصورت اور جسمانی ساخت سے متعلق ہوں, یا اقوال وافعال اور اخلاق وکردار سے متعلق ہوں۔ ابوداود کی ایک حدیث میں ہے: «اے لوگو! جو زبانی طور پر ایمان لائے ہو اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے, مسلمانوں کی غیبت نہ کرو, اور ان کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو ,کیونکہ جو ان کے عیوب کی تلاش میں رہے گا اﷲ اس کے عیوب کی تلاش میں رہے گا, اور اﷲجس کے عیوب تلاش کرے گا اس کی فضیحت اس کے گھر میں ہوجائے گی»۔
                واضح رہے کہ جو شخص علانیہ طور پر فسق وفجور کا مرتکب ہو اس کی غیبت حرام نہیں, بلکہ لوگوں سے اس کی حالت بیان کردینا ضروری ہے تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
                ٥۔ بدلہ عمل کے جنس سے ملتا ہے, یعنی جس انداز کا عمل ہوگا اس کی جزا بھی آخرت میں اسی طرح کی ملے گی؛ جیسے آسانی کرنے پر آسانی اور عیب پوشی پر عیب پوشی وغیرہ۔ اس ضمن میں دیگر نصوص بھی ملتے ہیں جیسے:« اﷲان بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں»۔
                ٦۔حدیث میں ایک مسلمان کا تعاون کرنے، اس کی ضرورت پوری کرنے, اوراس کی حاجت کی تکمیل کے لئے سعی وکوشش کی ترغیب دی گئی ہے۔ کسی ایسے شخص کے پاس سفارش کردینا بھی تعاون کی ایک صورت ہے جہاں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔
                ٧۔ علم طلب کرنے والے کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔  یہ علم طلب کرنے کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے, نیز اس کے سوا اور بھی طلب علم کے بہت سے فضائل کتاب وسنت میں مذکور ہیں۔
                ٨۔ مسجد میں اکٹھا ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور تعلیم نیز درس وتدریس ایک فضیلت والا عمل ہے۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد کے ساتھ خاص ہے, لیکن صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں مسجد کا ذکر نہیں ہے, لہذا وہ اپنے عموم کی بنا پرتمام مقامات کو شامل ہے۔
                ٩۔ اﷲکے نزدیک بندوں کا مقام ان کے عمل وکردار اور تقوی کے ذریعہ متعین ہوتاہے، ان کے حسب ونسب سے نہیں۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫالاحقاف:١٩ [اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے]۔
                نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کو نبی کی رشتہ داری کام نہ آسکی اور طوفان میں غرقاب ہوگیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد ایمان نہ لانے کی بنا پر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ محمد e کے چچا ابوطالب شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے داخل جہنم ہوں  گے۔
                ١٠۔ اپنے حسب ونسب اور رنگ ونسل پر غرور ایک فریب ہے جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ دل کی صفائی اور عمل کی اصلاح ہی آخرت میں کام آنے والی چیز ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮁ    ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ الحجرات: ١٣ [اﷲکے نزدیک تم سب میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اﷲسے ڈرنے والا ہے]۔
                نبی e فرماتے ہیں: «اﷲتعالی تمھارے جسموں اور تمھاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے»۔ (مسلم)

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق