الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٤٢)


حدیث (٤٢)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله تعالى عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: «قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ, إِنَّكَ مَا دَعَوتَنِيْ وَرَجَوتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ عَلَىٰ مَا كَانَ فِيْكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آدَمَ لَو بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَو أَتَيْتَنِيْ بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِيْ لَا تُشْرِكْ بِيْ شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغفِرَةً». رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحَيْحٌ.
ترجمہ:
                انس t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ e کو فرماتے سنا: «اﷲتعالی نے فرمایا ہے: اے آدم کے بیٹے ! تو جب بھی مجھ سے دعا کرتا ہے اور مجھ سے امید لگاتا ہے تو تیرے ہر طرح کے عمل کے باوجود میں تجھے بخش دیتا ہوں, اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں, پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے, تو میں تجھے بخش دوں گا, اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر تو میرے پاس زمین بھر غلطیاں لے کے آیا, پھر مجھ سے تو نے اس حالت میں ملاقات کی کہ میرے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا تھا, تو میں تیرے پاس زمین بھر مغفرت لے کے آؤں گا۔  (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن صحیح قرار دیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ اس کتاب کی آخری حدیث ہے, اور نہایت اہم اور بنیادی باتوں پر مشتمل ہے۔ اسے حسن خاتمہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
                ٢۔ اس حدیث میں مغفرت کے تین اسباب ذکر کئے گئے ہیں:
¡۔ دعا وامید         
¢۔ استغفار           
£۔ شرک سے اجتناب
¡  دعا اور امید۔ اﷲ تعالی نے دعا کا حکم دیا ہے اور قبولیت کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہے: ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ غافر: ٦٠ [اور تمھارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا]۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کی کئی صورتیں ہیں: یا تو بعینہ مانگی ہوئی چیز مل جاتی ہے, یا دعا کے مطابق کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے, یا دعا کا اجروثواب آخرت کے لئے ذخیرہ کردیا جاتا ہے۔
                 ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اﷲتعالی سے دعائیں کرتا رہتا ہے، اس کی رحمتوں کا طالب اور اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہے، کبھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا, کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مایوسی اور ناامیدی کفر ہے, اور دعا کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔
                ¢ استغفار۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اﷲسے مغفرت طلب کرے۔ مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اﷲعیب کو چھپادے اور اسے معاف کردے۔ دنیا میں لوگوں کو اس کے گناہ کی اطلاع نہ ہونے پائے, تاکہ کوئی فضیحت نہ ہو, اور آخرت میں بھی معاف ہوجائے۔ حدیث میں ہے کہ: «بروز قیامت اﷲتعالی مومن بندے کے ساتھ خلوت میں ہوکر اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا,  پھر فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں پر پردہ ڈال رکھا تھا, اور آج میں انھیں تیرے لئے بخش دیتا ہوں»۔ (بخاری ومسلم)
                اسی لئے اپنے گناہوں کا اعلان کرتے پھرنا یا صرف کسی ایک شخص کو ہی اس کی اطلاع دینا بہت سنگین غلطی ہے۔ نبی e کا ارشاد ہے: «میری تمام امت معافی کے قابل ہے, سوائے علانیہ گناہ کرنے والے کے, اور علانیہ گناہ کرنا یہ بھی ہے کہ آدمی رات کو کوئی کام کرے, صبح ہونے تک اﷲنے اس کے کرتوت پر پردہ ڈال رکھا تھا, پھر وہ خود دوسروں سے کہنے لگے: اے فلاں! میں نے کل رات ایسے ایسے کیا, حالانکہ اس کے رب نے اس کے عمل پر پردہ ڈال رکھا تھا, اس نے خود اﷲکا پردہ چاک کردیا»۔(بخاری ومسلم)
                نبی e بہ کثرت توبہ واستغفار کیا کرتے تھے۔ ابوہریرہ t کی روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲe  کو فرماتے سنا: «اﷲ کی قسم! میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اﷲسے توبہ واستغفار کرتا ہوں»۔(بخاری)
                عبداﷲبن عمرt کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی e کو یہ کلمہ کہتے ہوئے سوبار شمار کرتے تھے: «رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ» (أبوداود،ترمذی) [اے میرے رب مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول کر, یقیناً تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم وکرم والا ہے]۔
                اﷲتعالی نے قرآن کریم کی کئی آیات میں استغفار کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﰐ  ﰑ   ﰒ  ﰓمحمد: ١٩ [اﷲتعالی سے اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے]۔
                استغفار ایک تو مطلق ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہرحال میں استغفار کرتا رہے, دوسرا مقید ہے جو بعض اوقات ومقامات کے ساتھ مخصوص ہے, جن کا ذکر ہم آئندہ سطور میں کررہے ہیں:
                (١) فرض صلاتوں کے بعد۔ «نبی e جب سلام پھیرتے تھے تو تین بار استغفر اﷲ کہتے تھے»۔ (مسلم)
                (٢) گناہ کے بعد۔ ارشاد باری ہے: ﭭ  ﭮ         ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ    ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  آل عمران: ١٣٥   [جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے, یا کوئی گناہ کربیٹھیں, تو فوراً اﷲکا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں, فی الواقع اﷲتعالی کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟]۔
                 علی t کہتے ہیں کہ جب مجھ سے کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو اس سے قسم لیتا ہوں, اگر اس نے مجھ سے قسم کھائی تو اس کی تصدیق کرتا ہوں, مجھ سے ابوبکر t نے حدیث بیان کی اور آپ نے سچ فرمایاکہ نبی e کا ارشادہے: «جو مسلمان کوئی گناہ کرے, پھروضو کرے, اور اچھی طرح وضو کرے, پھر دو رکعتیں صلاة پڑھے, پھر اﷲسے مغفرت طلب کرے, تو اﷲتعالی اس کی مغفرت کردیتا ہے»۔ (یہ روایت سنن میں بہ سند جید مروی ہے)
                (٣) بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد۔نبی e جب بیت الخلاء سے نکلتے تھے تو غفرانک پڑھتے تھے۔(ابوداود،ترمذی)
                (٤) آخری تشہد کے بعد۔ ابوبکر صدیق t نے اﷲکےرسول e سے عرض کیا کہ آپ ان کو کوئی ایسی دعا سکھلادیں جسے وہ صلاة کے اندر پڑھا کریں, تو آپ e نے ان کو یہ دعا سکھلائی: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا, وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ, فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ, وَارْحَمْنِي, إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ»۔ (متفق علیہ) [اے اﷲ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے, اور صرف توہی گناہوں کو بخشنے والا ہے, تو مجھ کو اپنے پاس سے خصوصی مغفرت اور بخشش عطا فرما, اور مجھ پر رحم کر, یقیناً تو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے]۔
                 علی t کی ایک طویل حدیث کے اندر اس طرح ہے کہ نبی e صلاة کے آخر میں تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان یہ کہا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ, وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ, وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ, أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ, لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ»۔  [اے اﷲ مجھ کو بخش دے, جو کچھ میں نے پہلے کیا ہے اور جوکچھ میں نے بعد میں کیا ہے, اور جو کچھ میں نے چھپ کر کیا ہے اور جو کچھ میں نے علانیہ کیا ہے, اور جو کچھ میں نے حد سے تجاوز کیا ہے اور جو کچھ تو میرے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے, اور تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں]۔ (صحیح مسلم)
                (٥) رکوع اور سجدہ کے اندر۔ عائشہ رضی اﷲعنہا کہتی ہیں کہ نبی e اپنے رکوع اور سجدہ کے اندر یہ دعا کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے: «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ, اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي»۔ [اے اﷲ، اے ہمارے رب ! میں تیری تسبیح اور تیری حمد بیان کرتا ہوں، اے اﷲ ! تو مجھ کو بخش دے]۔
                (٦) دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک میں۔ عبداﷲبن عباسt بیان کرتے ہیں کہ نبی e جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پڑھتے: «رَبِّ اغْفِرْلِيْ, وَارْحَمْنِيْ, وَاجْبُرْنِيْ, وَارْفَعْنِيْ, وَارْزُقْنِيْ, وَاهْدِنِيْ, وَعَافِنِي». (ابوداود) [اے میرے رب مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے غنی کردے, اور مجھے بلندی نصیب کر، اور مجھے رزق سے نواز ,اور مجھے ہدایت دے, اور مجھے عافیت عطا فرما]۔
                (٧) بوقت سحر۔ اﷲتعالی نے قرآن مجید میں اپنے مومن بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﭡ  ﭢ آل عمران: ١٧ [اور وہ رات کے پچھلے پہر استغفار کرتے ہیں]۔ نیز ارشاد ہے: ﮓ  ﮔ  ﮕ      الذاريات: ١٨ [اور وہ وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے]۔
                حدیث میں بالکل صحیح سند سے یہ بات ثابت ہے کہ «اﷲتعالی رات کے آخری تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے, اور کہتا ہے: کیا ہے کوئی سائل جسے میں عطا کروں؟ کیا ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا میں قبول کروں؟ کیا ہے کوئی استغفار کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں ؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے»۔(متفق علیہ)
                استغفار کے لئے سب سے شاندار الفاظ وہ ہیں جنھیں حدیث میں سیدالاستغفار کا نام دیا گیا ہے, اور جس کے الفاظ اس طرح ہیں:  «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي, لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ, خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ, وَأَنَا عَلَىٰ عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ, أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ, أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ, وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِيْ, فَاغْفِرْ لِيْ, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ». (ترجمہ:اے اﷲتو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تونے مجھے پیدا کیا ہے, میں تیرا بندہ ہوں, میں تیرے عہد اور وعدے پر(قائم) ہوں جس قدر طاقت رکھتا ہوں, میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں, اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں, تجھ سے اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں, پس مجھے بخش دے, کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا)۔
                سید الاستغفار کے بارے میں نبی e کا ارشاد ہے کہ« اگر کوئی بندہ یقین کے ساتھ اسے صبح میں پڑھ لے اور شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کی موت ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا, اور اگر یقین کے ساتھ یہ دعا رات میں پڑھ لے اور صبح ہونے سے پہلے مرجائے تو جنت میں داخل ہوگا»۔ (بخاری)
                واضح رہے کہ زبانی طور پر استغفار کے کلمات دہراتے رہنا اور گناہ پر اصرار کئے جانا قطعاً سود مند نہیں, اسے صرف ایک دعا کی حیثیت حاصل ہوگی, اﷲچاہے تو قبول کرے ورنہ ردکردے۔ فائدہ مند استغفار وہ ہے جس میں دل وزبان کی موافقت ہو، اپنے کئے پر شرمندگی ہو, اور دوبارہ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا پختہ عزم ہو۔
                £ شرک سے اجتناب: حدیث میں شرک سے اجتناب کو مغفرت کا تیسرا سبب قرار دیا گیا ہے۔درحقیقت شرک سے اجتناب اور توحید کا اختیارمغفرت کی اساس اور اس کا سب سے عظیم سبب ہے۔ جس کے پاس توحید نہیں اس کی مغفرت نہیں۔ جس کے پاس توحید ہے اس کے لئے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ   ﮦ  ﮧ  ﮨ    ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ  ﮭ  ﮮ النساء: ٤٨ [یقیناً اﷲتعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے]۔
                جو شخص کلمۂ توحید کا پورا پابند تھا, اور جس نے اپنے دل سے غیراﷲکی محبت وتعظیم، ہیبت وجلال، خوف وخشیت، توکل واعتماد، اور امیدوبیم نکال باہر کی, اس کے گناہ جل اٹھیں گے, خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں, اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیکیوں میں بدل جائیں۔
                شرک ایسا منحوس اور خطرناک عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔شرک اس روئے زمین پر کئے جانے والے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ شرک کرنے والے انسان پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ شرک کیا ہے؟ حدیث (٢٩) میں بیان کیا جاچکا ہے۔ شرک کی مذمت میں بے شمار آیات واحادیث ہیں۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی توحید پر ثابت قدم رکھے, اور شرک سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلی الله علی نبينا وسلم.

حدیث (٤١)


حدیث (٤١)

عَنْ أَبِيْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ بِنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّىٰ يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ». حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ رَوَيْنَاهُ فِي كِتَابِ الحُجَّةِ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
ترجمہ:
                عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں»۔ (حدیث صحیح ہے کتاب الحجہ میں بہ سند صحیح ہمیں اس کی روایت ملی ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ انسان اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی محبت رسول اﷲe  کی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے، آپ کے دئیے ہوئے حکموں سے محبت کرے, اور آپ کی روکی ہوئی چیزوں سے نفرت کرے۔
                جن لوگوں کی محبت اور خواہش رسول اﷲe  کی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہے وہ کئی طرح کے لوگ ہیں:
×    ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو پوری طرح آپ کی شریعت سے بیزار ہیں ایسے لوگ کافر ہیں۔
×    دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے دل سے بیزار ہیں لیکن زبان واعضاء سے اقرار کرتے ہیں ایسے لوگ منافق ہیں۔
×    تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کبھی اپنی خواہش پہ چلتے ہیں اور کبھی شریعت پہ، حکموں کے اتباع میں کچھ کوتاہی کرتے ہیں اور بعض حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں, ایسے لوگ مومن فاسق ہیں، اپنے ایمان واتباع کی بنیاد پر مومن ہیں اور اپنی مخالفت ومعصیت کی بناپر فاسق ہیں۔
                ٢۔ حدیث میں خواہشات نفس کی مذمت وارد ہوئی ہے, خصوصاً جب وہ شریعت کے خلاف ہوں, اور واقعہ یہ ہے کہ تمام بدعات وخرافات اور تمام نافرمانیوں کی جڑ یہی ہے کہ لوگ خواہشات نفس کو کتاب وسنت پر مقدم رکھتے ہیں۔
(امام ابن قیم رحمہ اللہ نے خواہشات کے موضوع پر خوب لکھا ہے، ہم نے ان کی ایک تحریر کا ترجمہ بعنوان "نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع" کیا ہے، خواہشات کے موضوع پر اس کا مطالعہ کافی مفید ہوگا۔)

حدیث (٤٠)


حدیث (٤٠)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - بِمَنْكِبَيَّ فَقَالَ: «كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ». وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا يَقُوْلُ: «إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ. وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ». رواه البخاري.
ترجمہ:
                ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے میرے کندھے کو پکڑکر ارشاد فرمایا: «دنیا میں اس طرح رہو گویا پردیسی ہو یا راہ پار کرنے والے مسافر ہو»۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے: "جب شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرو,  جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرو,  اپنی صحت میں اپنی بیماری کے لئے کچھ کرلو, اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لئے کچھ کرلو"۔  (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔دنیا مومن کے دل لگانے کی جگہ نہیں کہ سکون سے وہیں کا ہوکے رہ جائے, بلکہ دنیا تو منزل سے پہلے وہ مختصر پڑاؤ ہے جہاں مسافر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرتا ہے, اور آگے جانے کے لئے ہمہ تن تیار رہتا ہے۔ ارشاد ہے: ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ    ﯣ  ﯤ غافر: ٣٩ [اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے، یقین مانو کہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے]۔
                نبی e نے ایک بار فرمایا: «مجھے دنیا سے کیا مطلب، میری مثال تو اس سوار کی ہے جس نے کسی درخت کے سایہ میں قیلولہ کیا, اور پھر اسے چھوڑ کر چلتا بنا»۔(ابن ماجہ، ترمذی)
                ٢۔تعلیم دینے کا ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ معلم اپنی بات کہنے سے پہلے طالب علم کی توجہ اپنی طرف موڑلے، نبی e نے ابن عمر t کے دونوں کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے انھیں اپنی طرف متوجہ کرکے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
                ٣۔ اپنے نفس کا محاسبہ انتہائی ضروری ہے کہ اس سے اﷲ کے حقوق میں کتنی کوتاہی ہوئی ہے اور بندوں کے حقوق میں کتنی ؟ کیونکہ اسی سے حالات درست ہوسکتے ہیں, اور دنیا کی طرف میلان ختم کرکے عبادت واطاعت میں لگا جاسکتا ہے۔
                ٤۔ موت سے قبل مہلت حیات کو اور بیماری سے قبل تندرستی کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ جب تک آدمی تندرست ہوتا ہے کشادہ دلی اور اطمینان خاطر کے ساتھ اﷲکی عبادت کرتا ہے, لیکن بیماری کی حالت میں عبادات میں گرانی محسوس ہونے لگتی ہے, لیکن یاد رہے کہ اگر وہ ان عبادات کا صحت کی حالت میں عادی تھا تو بیماری کی حالت میں اس کا وہی اجر لکھاجائے گا۔ نبی e کا ارشاد ہے: «جب بندہ بیمار پڑتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لئے وہی عمل لکھاجاتا ہے جسے وہ تندرستی اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا»۔ (بخاری)
                ایسے ہی موت کے ذریعہ انسان کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے, اور جب انسان اور عمل کے درمیان موت رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجاتی ہے تو انسان دنیا کی طرف واپس آنے کی تمنا کرنے لگتا ہے, تاکہ اسے عمل کا دوبارہ موقع مل سکے, لیکن اب حسرت وندامت کے سوا چارہ نہیں۔ ارشاد باری ہے: ﮨ  ﮩ   ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ   ﮯ    ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ   ﯖﯗ  ﯘﯙ  ﯚ  ﯛ      ﯜ  ﯝﯞ  ﯟ  ﯠ    ﯡ  ﯢ  ﯣ    ﯤ  ﯥ  المؤمنون: ٩٩ – ١٠٠ [یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار ! مجھے واپس لوٹادے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پیچھے تو ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک حجاب ہے]۔

حدیث (٣٩)


حدیث (٣٩)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَال: «إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ لِيْ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ». حديث حسن رواه ابن ماجه والبيهقي وغيرهما.
ترجمہ:
                ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: «اللہ تعالی نے میرے لئے میری امت سے غلطی، بھول چوک اور جس پرانھیں مجبور کردیا جائے معاف کردیا ہے»۔ (حدیث حسن ہے، ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث بڑی نفع بخش اور اہم ہے, بلکہ اسے نصف شریعت کہا گیا ہے, کیونکہ انسان کا ہر چھوٹا بڑا عمل یا تو اس کے قصد و ارادہ اور اختیار سے صادر ہوگا, یا قصد واختیار کے بغیر ,یعنی غلطی، بھول چوک اور زور زبردستی سے ہوگا, اور یہ دوسری قسم معاف ہے, جبکہ پہلی قسم قابل مواخذہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث نصف شریعت ہے۔
                ٢۔ اﷲکی رحمت بہت وسیع ہے, چنانچہ اس نے بندوں سے سرزد ہونے والی خطاؤں، بھول چوک اور بوجہ مجبوری کی جانے والی چیزوں کو معاف کردیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ    ﯩ  ﯪ  ﯫ البقرة: ٢٨٦  [اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا]۔ حدیث میں ہے کہ اﷲتعالی نے فرمایا: میں نے ایسا کردیا ہے۔ نیز ارشاد ہے: ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ   ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ الاحزاب:٥ [تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو]۔ نیز ارشاد ہے: ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ    ﮃ  ﮄ  ﮅ   ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ      ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  النحل: ١٠٦  [جو شخص اپنے ایمان کے بعد اﷲسے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اﷲکا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے]۔
                ٣۔ غلطی اور بھول چوک کی پکڑنہیں ہے, لیکن اہل علم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ "اگر کوئی شخص بھول یا نادانی یا غلطی سے ایسا کام چھوڑدے جس کا حکم دیا گیا ہے تو اس کام کے دوبارہ کئے بغیر اس کی ذمہ داری ختم نہیں ہوگی۔لیکن اگر غلطی یا بھول یا نادانی کی بنا پر کوئی ایسا کام کرڈالے جس سے روکا گیا ہے تو اس کی عبادت مکمل ہوجائے گی, اور اسے دہرانا نہیں پڑے گا"۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے بھول کر طہارت کے بغیر صلاة ادا کرلی تو اس پر گناہ نہ ہوگا, لیکن اسے صلاة دہرانی پڑے گی, کیونکہ طہارت ایسا عمل ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی نے نادانی سے اس حالت میں صلاة پڑھ لی کہ اس کے کپڑے پر گندگی لگی ہوئی تھی, تو اس کی صلاة درست ہوگی, اور دہرانے کی ضرورت نہیں۔
                ٤۔ زبردستی کرائے گئے کسی کام پر پکڑ نہیں ہے سوائے ایک حالت کے, اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی شخص کو کسی بے گناہ کے قتل پر مجبور کرے ورنہ وہ خود قتل کردیا جائے گا, ایسی صورت میں اپنی جان بچاکر دوسرے بے گناہ کی جان لینا درست نہ ہوگا, لیکن اگر کسی نے ایسا کردیا تو جس نے زبردستی کی ہے اور جس سے زبردستی کی گئی ہے دونوں جرم میں اور قصاص میں شریک مانے جائیں گے۔

حدیث (٣٨)


حدیث (٣٨)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «إِنَّ اللّٰهَ تَعَالَىٰ قَالَ: مَنْ عَادَىٰ لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ. وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُهُ عَلَيْهِ. وَلَايَزَالُ عَبْدِيْ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّىٰ أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِهَا. وَلَئِنْ سَأَلَنِيْ لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِيْ لَأُعِيْذَنَّهُ). رواه البخاري.
ترجمہ:
                ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: «اللہ تعالی کا فرمان ہے: جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قرار دی ہیں۔ پھر نوافل کے ذریعے میرا بندہ مجھ سے برابر قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں, اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے,  اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے,  اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں, اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو ضرور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں»۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بندے اﷲکے ولی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر موجود ہے: ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ   ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  يونس: ٦٢ - ٦٣   [یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں, یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں]۔ معلوم ہوا کہ ہر مومن ومتقی بندہ اﷲ کا ولی ہے, لیکن چونکہ لوگ ایمان وتقوی میں متفاوت ہوتے ہیں لہٰذا درجات ولایت میں بھی تفاوت ہوگا۔
                ٢۔ اﷲکے نزدیک اولیاء کی بڑی عزت ہے, اسی لئے ان سے دشمنی رکھنے والوں سے اﷲنے جنگ کا اعلان کیا ہے۔
                ٣۔ حدیث میں ولایت حاصل کرنے کے اسباب بتائے گئے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی ان میں سب سے اہم سبب ہے۔ فرائض کی ادائیگی میں صوم وصلاة اور حج وزکاة کی پابندی, نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر, اور اﷲ اور اس کے بندوں کے تمام واجبی حقوق داخل ہیں۔ ان تمام فرائض کی ادائیگی بلاکسی کمی کے اﷲکے اولیاء کی ایک صفت ہے۔ عوام اپنی جہالت کی بنا پر بہت سے ایسے لوگوں کو ولی سمجھ لیتے ہیں جو شریعت سے بے پروا اور صوم وصلاة سے لاتعلق ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کا ولی ہونا تو کجا ایک عاقل مسلمان ہونا بھی بعید ہے۔شریعت کی پابندی اﷲکے ولی کی سب سے اہم نشانی ہے۔
                ٤۔فرائض کی ادائیگی کے بعد ولایت کا ایک سبب نوافل کے ذریعہ اﷲکی قربت بھی ہے۔ جس قسم کی عبادت فرض ہے اسی جنس کے نوافل بھی شریعت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نوافل فرائض کی تکمیل کا باعث اور اﷲکی محبت وقربت کا ذریعہ ہیں۔
                ٥۔ نوافل کی بہ نسبت فرائض اﷲکو زیادہ محبوب اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہیں نیز وہ نوافل سے مقدم ہیں۔ فرض صلاة نفلی صلاة سے اور فرض صوم نفلی صوم سے زیادہ اہم اور اﷲکے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔
                ٦۔ اﷲ محبت بھی کرتا ہے اور اس سے محبت کی بھی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ    ﮩ المائدة: ٥٤  [اﷲتعالی بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اﷲ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اﷲسے محبت رکھتی ہوگی]۔ کچھ بدعتی فرقے محبت الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت اور سلف کا مسلک یہ ہے کہ اﷲکے لئے اﷲکے شایان شان محبت ثابت ہے, جومخلوق کی محبت کی طرح نہیں, بلکہ جس طرح اﷲکی ذات بے مثل ہے اسی طرح اس کی محبت نیز دیگر تمام صفات بھی بے مثل ہیں۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﭡ  ﭢ    ﭣﭤ   ﭥ     ﭦ  ﭧ الشورى: ١١ [اس جیسی کوئی چیز نہیں، وہ سننے اور دیکھنے والا ہے]۔
                ٧۔ اﷲ جس سے محبت کرتا ہے اور جو اس کا ولی ہوتا ہے اﷲتعالی اس کے کان وآنکھ اور ہاتھ وپیر کو اپنی مرضی کے مطابق ٹھیک راستے پر چلاتا ہے۔ وہ وہی سنتے ہیں جس میں اﷲکی رضا ہو, اور وہی دیکھتے ہیں جس میں اﷲکی رضا ہو, اور ہاتھ وپیر سے بھی وہی کام انجام دیتے ہیں جو اﷲکی خوشنودی کے مطابق ہو۔ وہ پابند شریعت ہوتے ہیں کیونکہ شریعت کی پابندی ہی سے اﷲکی رضا حاصل کی جاسکتی ہے۔
                حدیث کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ (معاذ اللہ) اﷲتعالی بندے کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے, بلکہ اﷲتعالی تو اپنی مخلوق سے الگ تھلگ اور جداہے۔ وہ سب سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
                ٨۔ اﷲتعالی اپنے اولیاء کی حرکات وسکنات کی حفاظت کرتا ہے,  انھیں راہ راست پہ رکھتا ہے, نیز ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ وہ مانگتے ہیں تو انھیں دیتا ہے,  وہ اس کی پناہ چاہتے ہیں تو انھیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔

حدیث (٣٧)


حدیث (٣٧)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِيْمَا يَرْوِيْهِ عَنْ رَبِّهِ - تَبَارَكَ وَتَعَالَىٰ - أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيْئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذٰلِكَ؛ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللّٰهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللّٰهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَىٰ سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَىٰ أَضْعَافٍ كَثِيْرَةٍ. وَإِنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللّٰهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللّٰهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً».
رَوَاهُ البُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ في صَحِيْحَيهِمَا بِهٰذِهِ الحُرُوْفِ.
ترجمہ:
                ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے اپنے رب تبارک وتعالی سے روایت فرمایا: «بے شک اللہ تعالی نے نیکیوں اور برائیوں کو لکھ دیا پھر اس کی وضاحت فرمادی۔ اگر ایک شخص نے کسی نیکی کا اردہ کیا اور اسے نہ کرسکا تو اللہ تعالی اپنے پاس اسے ایک مکمل نیکی لکھتا ہے,  اور اگر اس کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل کیا تو اللہ تعالی اپنے پاس دس نیکیوں سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ کئی گنا تک لکھتا ہے,  اور اگر کسی برائی کا اردہ کیا اور پھر اسے نہیں کیا تو اسے اللہ تعالی اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھتا ہے,  اور اگر اس کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل کیا تو اسے اللہ تعالی ایک برائی لکھتا ہے»۔  
(اسے بخاری ومسلم نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔یہ عظیم حدیث اﷲتعالی کے وسیع لطف وکرم اور فضل واحسان پر دلالت کرتی ہے۔
                ٢۔ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اسے نہ کرسکے تو اﷲ تعالی ایک مکمل نیکی لکھتا ہے۔ یہاں ارادہ سے مراد عزم اور پختہ ارادہ ہے۔ نیکی کے ارادہ پر ہی اجر مل جانے کے دلائل کتاب وسنت میں بہت ہیں۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮ ﯯ  ﯰ  ﯱ   ﯲ  ﯳ  ﯴ  ﯵ  ﯶالنساء:١٠٠ [اور جو کوئی اپنے گھر سے اﷲتعالی اور اس کے رسول e کی طرف نکل کھڑا ہو پھر اسے موت نے آپکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اﷲتعالی کے ذمہ ثابت ہوگیا]۔
                صحیح بخاری میں ابوموسی اشعری t سے مروی ہے کہ نبیe نے ارشاد فرمایا: «جب بندہ بیمار یا مسافر ہوتا ہے تو اس کے لئے وہی اجر وثواب لکھاجاتا ہے جو وہ صحت اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا»۔
                 مومن بندوں پریہ اﷲ کا عظیم احسان ہے کہ اگر سفر یا بیماری کی وجہ سے ان کے یومیہ عبادات و اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے تو بھی اﷲتعالی ان کا پورا ثواب لکھتا ہے, کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر رکاوٹ نہ ہوتی تو بندہ ضرور اپنا عمل جاری رکھتا۔اسی لئے اﷲتعالی انھیں ان کی نیت کے مطابق اعمال کا بھی اجر دیتا ہے, اور بیماری کا الگ سے مخصوص ثواب بھی دیتا ہے۔
                سنن ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی e نے فرمایا: «دنیا چار قسم کے لوگوں کے لئے ہے۔ ایک وہ ہے جسے اﷲنے علم سے نوازا ہے مگر مال سے محروم رکھا ہے، اس کی سچی نیت یہ ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں (دولت مند)شخص کی طرح عمل کرتا, چنانچہ وہ اپنی نیت کے مطابق ثواب پائے گا اور دونوں کا ثواب برابر ہوگا»۔
                ٣۔ جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور اسے کربھی لیا تو اﷲتعالی اسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب لکھتا ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓالانعام:١٦٠  [جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے]۔ دس گنا پر ثواب کی زیادتی حسن عمل،اخلاص نیت، اتباع سنت اور نیکی کے محل کی موزونیت کے اعتبار سے ہوگی۔
                ٤۔جو شخص برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اسے نہ کرے تو اﷲتعالی اس کے لئے ایک کامل نیکی لکھتا ہے بشرطیکہ اس نے وہ گناہ اﷲکے خوف سے چھوڑا ہو, اگر مخلوق کے ڈر سے یا اسباب ووسائل کے مہیا نہ ہونے کی بناپر مجبوراً چھوڑا ہے تو اسے یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔
                ٥۔ جس شخص نے کسی برائی کا اردہ کیا اور اسے کرڈالا تو اس پر ایک ہی گناہ لکھا جائے گا اور کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮕ  ﮖ  ﮗ    ﮘ  ﮙ   ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  الانعام: ١٦٠ [اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا]۔
                لیکن بسا اوقات وقت یا مقام کے شرف وعظمت کی بنا پر برائیوں کا گناہ بڑھ جاتا ہے؛ جیسے کوئی مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے حدود حرم میں شر وفساد کا ارادہ کرے تو ارادہ ہی پر گنہگار اور مستحق سزا ہوجائے گا۔