الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣٠)


حدیث (٣٠)

عَنْ أَبِيْ ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ جُرْثُومِ بْنِ نَاشِرٍ - رضي الله تعالى عنه - عَن رَسُولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «إِنَّ اللّٰهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ حُدُوْدًا فَلَا تَعْتَدُوهَا, وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ غَيْرَ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا».  حديث حسن رواه الدارقطني وغيره.
ترجمہ:
                ابو ثعلبہ خشنی t سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «اللہ تعالی نے کچھ چیزیں فرض فرمائی ہیں ان کو ضائع نہ کرو, اور کچھ حد بندیاں کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو, اور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کا ارتکاب نہ کرو, اور کچھ چیزوں کے بارے میں بھول کر نہیں بلکہ تم پر رحم فرماتے ہوئے خاموشی برتی ہے, ان کے بارے میں کرید نہ کرو»۔  (حدیث حسن ہے۔ دارقطنی وغیرہ نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ حدیث دینی مسائل کی ایک عظیم بنیاد ہے۔ اس میں احکام کو چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: ¡ فرائض ¢ محارم £ حدود ¤مسکوت عنہ۔ دین کا کوئی مسئلہ ان چاروں احکام سے خارج نہیں ہے۔
                ٢۔ فرائض کی پابندی نہایت اہم ہے۔ یاد رہے کہ فرائض کی دو قسمیں ہیں:
À  فرض کفایہ:۔  وہ عمل شریعت میں جس کی انجام دہی مقصود ہے, اس سے قطع نظر کہ اس کا فاعل کون ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر چند لوگوں نے اسے انجام دے دیا تو یہ تمام سے ساقط ہوجائے گا, اس کی مثال اذان واقامت اور صلاة جنازہ وغیرہ کی ہے۔
Á فرض عین:۔ وہ عمل جس میں شریعت کا مقصود فعل وفاعل دونوں ہیں۔ جس کا مطالبہ ہر ہر شخص سے ہے, اور جو ہرشخص کوادا کرنا ضروری ہے, جیسے اسلام کے پانچوں ارکان۔
                ٣۔اﷲکے حدود سے تجاوز کرنا حرام ہے۔ حدود اﷲ میں اوامر ونواہی دونوں داخل ہیں،اوامر واحکامات کے تجاوز سے روکا گیا ہے؛ مثلاً: ارشاد باری ہے: ﯭ  ﯮ  ﯯ  ﯰ  ﯱﯲ  ﯳ  ﯴ   ﯵ  ﯶ  ﯷ   ﯸ  ﯹ  البقرة: ٢٢٩ [یہ اﷲ کی حدود ہیں, خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا, اور جو لوگ اﷲ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں]۔ اسی لئے شریعت نے غلو اور تجاوز سے روکا ہے۔ نبی e نے منیٰ میں جمرات پر کنکری مارتے ہوئے چنے کے برابر کنکریاں ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا: «اس طرح کی کنکریوں سے مارو, اور غلو سے بچو, کیونکہ تم سے پہلے کی امتوں کو غلو نے تباہ کردیا»۔(ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)
(غلو سے متعلق تفصیل جاننے کے لئے ہماری کتاب "غلو کے کرشمے" ملاحظہ کریں۔)
                نواہی اور ممنوعات کی حدوں کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑﮒ  ﮓ      ﮔ  ﮕ  ﮖ   ﮗ  ﮘ   ﮙ البقرة: ١٨٧ [یہ اﷲتعالی کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اﷲتعالی اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں]۔ تمام گناہوں کے قریب جانے سے شریعت میں روکا گیا ہے۔ ارشاد مولیٰ ہے: ﮊ  ﮋ  ﮌ الاسراء: ٣٢ [زناکے قریب مت جاؤ]۔ نیز ارشاد ہے: ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  الانعام: ١٥٢ [اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے]۔
                گناہوں کے قریب جانے سے اس لئے روک دیا گیا کیونکہ ان میں پڑنے سے ایمان کم ہوجاتا اور اﷲتعالی سے دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ گنہگار یہ نہ دیکھے کہ گناہ چھوٹا ہے بلکہ وہ یہ دیکھے کہ وہ ذات کتنی بڑی اور کتنی عظمت والی  ہے جس کی وہ نافرمانی کررہا ہے!۔ اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گناہ ہوجانے کے بعد فوراً اﷲکو یاد کرتے ہیں, توبہ واستغفار کے ذریعہ اس کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں۔
                ٤۔مسکوت عنہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں شریعت میں خاموشی اختیار کی گئی ہے, جن کا کوئی حکم بیان نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے امور کا حکم یہ ہے کہ وہ معاف ہیں, ان کے بارے میں زیادہ بحث وکرید ممنوع ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق