الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (١٦)

حدیث (١٦)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه -: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -: أَوْصِنِيْ . قَالَ: «لَا تَغْضَبْ»، فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: «لَا تَغْضَبْ». رواه البخاري .
ترجمہ:
                ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی e سے کہا کہ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ نے کہا: «غصہ نہ کیاکرو»۔ پھر اس نے اپنی بات کئی بار دہرائی تو بھی آپ نے کہا: «غصہ نہ کیا کرو»۔  (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔جوش انتقام سے دل کا خون کھولنے کا نام غصہ ہے۔ نبیe نے سائل کو بار بار غصہ نہ کرنے کی تاکید فرمائی, جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غصہ ہر برائی کی جڑ ہے, اور غصہ سے بچنا ہر نیکی کی اساس ہے۔ غصہ ہی کی بنا پر کتنے بے جا گالی گلوج، تہمت تراشیاں،قطع تعلقات، طلاق وخلع اور ناحق قتل وخون ہوجایا کرتے ہیں، غصہ روک کر آدمی ان ساری برائیوں سے بچ سکتا ہے۔
                ٢۔ نبی e کا فرمان دو عظیم باتوں پر مشتمل ہے:
١) اسباب کو اختیار کرنے کا حکم۔ بہتر اخلاق اپنانے کی مشق، حلم وبردباری، صبر وتحمل، نفس پر قابو اور قولی وفعلی اذیتوں کو برداشت کرنے کی صفت پیدا کرنا۔ اگر بندہ کو ان اعلی اوصاف کی توفیق مل جائے تو جب بھی غصہ کا وقت آئے گا وہ اپنے اچھے اخلاق، صبر وضبط اور عاقبت اندیشی کی بنا پر غصہ پی جایا کرے گا۔
٢) غصہ آجانے کے باوجود اس کے تقاضے پر عمل نہ کرنا۔ غالباً انسان کو غصہ روکنے کی قدرت نہیں ہوتی, البتہ غصہ کے تقاضوں کو روکنے کی اسے بہر حال قدرت ہوتی ہے, لہذا اسے ان تمام اقوال واعمال سے پرہیز کرنا ضروری ہے جن پر غصہ آمادہ کرتا ہے جبکہ اسلامی شریعت نے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
                ٣۔ غصہ کاعلاج غصہ آنے سے پہلے یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو صبروتحمل کا عادی اور پابند بنائے۔
                ٤۔ غصہ کا علاج غصہ آنے کے بعد مندرجہ ذیل ہے:
١) غصہ پی جانے کی فضیلت کو یاد کرنا: اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﭣ  ﭤ  ﭥ   ﭦ  ﭧﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫ آل عمران: ١٣٤  [غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں، اﷲتعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے]۔ حدیث میں ہے: «پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑدے، حقیقی پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو پالے»۔(متفق علیہ) بہادری جسمانی قوت سے نہیں بلکہ دماغی قوت سے ہوتی ہے، جو شخص حالت غضب میں بھی اپنے آپ کو حق کا پابند رکھتا ہے وہی دراصل بہادر ہے۔
٢) شیطان مردود سے اﷲکی پناہ طلب کرنا۔ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ   پڑھنا۔
٣) وضو کرنا۔
٤) موجودہ حالت وہیئت کو تبدیل کرلینا, یعنی اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔
                ٥۔ غصہ کے معاملہ میں انسانوں کی تین قسمیں ہیں:
Ê جو اس قدر غضبناک ہوجاتے ہیں کہ ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں, اور انھیں اپنے قول وفعل تک کا شعور واحساس نہیں رہ جاتا۔
Ë جو کسی بھی بات پر غصہ نہیں ہوتے خواہ بڑی سے بڑی بات ہوجائے۔
Ì جو بوقت ضرورت غصہ ہوتے ہیں اورسبب ختم ہونے پر ان کا غصہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ تیسری حالت سب سے مناسب اور موزوں ہے۔
                ٦۔ غصہ اگر دنیوی اسباب کی بنا پر ہے تو قابل مذمت ہے, لیکن اگر اﷲکے لئے اور حق کی خاطر ہے تو قابل مدح ہے, چنانچہ قرآن مجید میں شرک کو دیکھنے پر موسی علیہ السلام کے غضبناک ہونے کا ذکرہے, نیز احادیث میں اﷲکی خاطر نبی e کے غصہ ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
                ٧۔ غصہ کی بعض قسمیں جبلی اور وہبی ہوتی ہیں, اور بعض کسبی اور حاصل کردہ ہوتی ہیں۔ نبی e نے أشج عبد القیس سے فرمایا تھا: «تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اﷲتعالی کو محبوب ہیں:حلم و بردباری اور عدم استعجال۔ انھوں نے سوال کیا: ان دونوں اخلاق پر میں پیدا کیا گیا ہوں یا میں نے انھیں ازخود حاصل کیا ہے؟ آپ e نے فرمایا: بلکہ ان دونوں اخلاق پر تمھیں پیدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے فرمایا: الحمد ﷲ!ہر قسم کی تعریفیں اﷲکے لئے جس نے مجھے اپنے پسندیدہ اخلاق پر پیدا فرمایا»۔ (مسلم)

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق