الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث(١٠)


حدیث(١٠)

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللّهُٰ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم-: «أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ اللّهَٰ تَعَالَىٰ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا, وَإِنَّ اللّهَٰ أَمَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِيْنَ, فَقَالَ: ( يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ) (المؤمنون: ٥١)، وَقَالَ: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ) (البقرة:١٧٢ (ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيْلُ السَّفَرَ, أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاء،ِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسَهُ حَرَامٌ, وَغُذِيَ بِالحَرَامِ فَأَنَّىٰ يُسْتَجَابُ لِذٰلِكَ؟». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: «اے لوگو! بے شک اللہ تعالی پاکیزہ ہے, اور پاکیزہ کو ہی قبول فرماتا ہے,اور یقیناً اللہ عزوجل نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم رسولوں کو دیا ہے, چنانچہ ارشاد ہے: اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو,تم جو کچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ نیز ارشاد ہے: اے ایمان والو! ہم نے تمھیں جو روزی دی ہے اس میں سے پاکیزہ رزق کھاؤ۔ پھر آپ eنے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبے سفر پر ہے، پراگندہ حال اور غبار سے اٹا ہوا ہے،اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے، کہتا ہے: اے میرے رب ! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام,اور حرام سے اس کی پرورش ہوئی ہے, تو کیونکر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے؟»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ اﷲتعالی کا ایک نام ''طیب'' ہے, یعنی ہر قسم کے عیوب ونقائص سے پاک۔ اﷲتعالی اپنی ذات وصفات اور اقوال وافعال ہرایک میں طیب وپاکیزہ ہے، کہیں کسی قسم کا عیب ونقص نہیں ہے۔
                ٢۔ اﷲتعالی صرف پاکیزہ چیزیں ہی قبول فرماتا ہے, خواہ وہ اقوال واعمال ہوں, یا صدقات وزکوات۔ اگر اقوال واعمال شرک وریا وغیرہ سے پاک نہیں تو وہ عند اﷲمقبول نہیں, اور اگر صدقات مال حلال سے نہیں بلکہ سود، رشوت، جوا، لاٹری، چوری، غصب یا کسی اور حرام طریقے سے حاصل کردہ ہیں تو ایسے مال کا صدقہ اﷲتعالی کے یہاں مقبول نہیں۔
                ٣۔ رسولوں اور ان کی امتوں کو حلال وپاکیزہ رزق کھانے اور عمل صالح کرکے اس کا شکر بجالانے کا حکم دیا گیا ہے۔
                ٤۔ اس حدیث میں دعا کی قبولیت کے چند اسباب ذکر کئے گئے ہیں:
١) لمبا سفر: سفر اگر چہ طویل نہ ہو پھر بھی دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: «تین دعائیں بلا شک وشبہ قبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا, اور اولاد کے لئے والد کی دعا»۔ (ابوداود، ترمذی،ابن ماجہ) وطن سے دوری اور مشقتیں جھیلنے کی وجہ سے سفر میں انسان پر لاچاری و عاجزی کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے, اور یہ حالت رب کریم کو بہت پسند ہے۔
٢) لباس اور شکل وصورت کی پراگندگی اور غبار آلودگی۔
٣) آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں: «اﷲتعالی بہت حیادار اور نہایت کریم وداتا ہے, جب بندہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اﷲکو انھیں خالی اور نامراد واپس کرنے سے حیا آتی ہے»۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
٤) اﷲکے اسماء وصفات کا وسیلہ: حدیث میں وہ شخص یارب یارب کہہ کر اﷲکی ربوبیت کا وسیلہ لے رہا ہے۔ اﷲعزوجل کا ارشاد ہے:  ( وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا)   (الأعراف: ١٨٠)  [اور اچھے اچھے نام اﷲہی کے لئے ہیں, سو ان ناموں (کے واسطہ) سے اﷲ سے دعا کرو]۔ قرآنی دعاؤں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر دعائیں (رَبَّنَا) سے شروع ہوتی ہیں۔
٥) دعا میں اصرار وتکر ار اور عزم وقطعیت: حدیث میں مذکور شخص اپنے مطلوب کا مکمل حریص اور بار بار یارب کہہ کر اصرار کررہا ہے۔ دعا میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت بھی یہی تھی کہ «آپ ایک دعا کو تین تین بار دہرایا کرتے تھے»۔ (مسلم)
                ٥۔ حدیث میں دعا کی قبولیت میں پائی جانے والی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ کا بیان ہے, اور وہ ہے حرام کھانا,جو تمام رکاوٹوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔دوسری رکاوٹ واجبات کو چھوڑنا اور محرمات کا ارتکاب ہے۔ تیسری رکاوٹ قبولیت میں جلدبازی کرنااور یہ کہنا ہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہ ہوئی۔ چوتھی رکاوٹ گناہ یا رشتے توڑنے کی دعا کرنا ہے۔
                واضح رہے کہ دعا کی قبولیت صرف یہی نہیں کہ بندہ جو کچھ مانگ رہا ہے اسے بعینہ وہ چیز مل جائے, بلکہ اس کے دوسرے بھی انداز ہیں جو حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں۔ اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں: «زمین پر جب کوئی مسلمان اﷲتعالی سے دعا کرتا ہے تو اﷲتعالی اسے وہ چیز عطا فرمادیتا ہے, یا اسی جیسی کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے, بشرطیکہ اس نے گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کی ہو۔ ایک شخص نے کہا تب تو ہم بہت دعا کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اﷲ بہت دینے والا ہے»۔ (ترمذی)
مستدرک حاکم کی روایت میں قبولیت کا ایک اور انداز مروی ہے وہ یہ کہ «اﷲتعالی اسی جیسا اجر وثواب اس کے لئے ذخیرہ فرمادیتا ہے» ۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق