الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٤)


حدیث (٢٤)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ الغِفَارِي - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِيْمَا يَرْوِيْهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ: «يَا عِبَادِيْ! إِنِّيْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَىٰ نَفْسِيْ, وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا, فَلَا تَظَالَمُوْا، يَا عِبَادِيْ! كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ, فَاسْتَهْدُوْنِي أَهْدِكُمْ، يَا عِبَادِيْ! كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ, فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ، يَا عِبَادِيْ! كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ, فَاسْتَكْسُوْنِيْ أَكْسُكُمْ، يَا عِبَادِيْ! إِنَّكُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ, وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا, فَاسْتَغْفِرُوْنِيْ أَغْفِرْ لَكُمْ، يَا عِبَادِيْ! إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضَرِّيْ فَتَضُرُّوْنِيْ, وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِيْ فَتَنْفَعُوْنِيْ، يَا عِبَادِيْ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ, وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ, كَانُوْا عَلَىٰ أَتْقَىٰ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ, مَا زَادَ ذٰلِكَ فِيْ مُلْكِيْ شَيْئًا. يَا عِبَادِيْ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ, وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ, كَانُوْا عَلَىٰ أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ, مَا نَقَصَ ذٰلِكَ مِنْ مُلْكِيْ شَيْئًا، يَا عِبَادِيْ! لَوْ أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ, وَإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ, قَامُوْا فِيْ صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ, فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ, مَا نَقَصَ ذٰلِكَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، يَا عِبَادِيْ! إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيْهَا لَكُمْ, ثُمَّ أُوَفِّيْكُمْ إِيَّاهَا؛ فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللّٰهَ, وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذٰلِكَ فَلَا يَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                ابوذر t سے مروی ہے کہ نبی e اللہ تعالی سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: «اے میرے بندو ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے, اور اسے تمھارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے, پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، سو مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمھیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں, پس مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں, پس مجھ سے لباس مانگو میں تمھیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب شب وروز خطائیں کرتے ہو, اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں, پس مجھ سے بخشش مانگو میں تم کو بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کی رسائی مجھے ضرر پہنچانے تک نہیں ہوسکتی کہ تم مجھے ضرر پہنچادو, اور نہ ہی تمھاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہوسکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچادو۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ, اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات, تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ, اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات, تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ کمی نہ کرے گا۔اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ, اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات, ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوجائیں, اور سب مجھ سے سوال کریں, اور میں ہر انسان کو اس کا سوال دے دوں, تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہ ہوگی, سوائے ایسے جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبونے کے بعد کم کردیا کرتی ہے۔اے میرے بندو! یہ تمھارے ہی اعمال ہیں جنھیں میں تمھارے لئے شمار کرکے رکھتا ہوں, پھر تم کو اس کا بدلہ دیتا ہوں, پس جو بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد بیان کرے, اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے تو وہ اپنے آپ ہی کی ملامت کرے»۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ حدیث حدیث قدسی کہلاتی ہے, کیونکہ نبی e اﷲتعالیٰ سے روایت کررہے ہیں۔ یہ بہت اہم اور عظمت والی حدیث ہے۔
                ٢۔ اﷲتعالی نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام کرلیا ہے؛ کیونکہ وہ مکمل عدل وانصاف والا ہے, اس کے عدل میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ارشاد ہے: ﭶ  ﭷ  ﭸ   ﭹ   ﭺ  ﭻ النساء: ٤٠ [بے شک اﷲتعالی ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا]۔ نیز ارشاد ہے:  ﮋ ﯷ  ﯸ     ﯹ  ﯺ   ﯻ    ﯼ  ﯽ   ﯾ  ﯿ  ﰀ   ﰁ  طه: ١١٢ [اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان دار بھی ہو, تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا, نہ حق تلفی کا]۔
                اﷲتعالیٰ نے قدرت کے باوجود بندوں پر ظلم وزیادتی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے یہ اس کابہت بڑا فضل واحسان ہے۔
                ٣۔ ظلم کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ بندہ خود اپنی جان پر ظلم کرے, اور وہ یہ کہ شرک کا ارتکاب کرے جو سب سے بڑا ظلم ہے, ارشاد باری ہے: ﭱ  ﭲ    ﭳ  ﭴ  لقمان:١٣ [یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے]یا گناہ صغیرہ یا کبیرہ کا ارتکاب کرے, اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵﮊ  الطلاق: ١  [جو اﷲکے حدود سے تجاوز کرتا ہے یقیناً اس نے اپنی جان پر ظلم کیا]۔
ظلم کی دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ دوسرے پر ظلم وزیادتی کرے اور یہ بھی حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔
                ٤۔ بندوں پر باہم ظلم وزیادتی حرام ہے۔ نبی e نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا: «تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزت وآبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جس طرح اس شہر(مکہ) میں اس مہینہ (ذوالحجہ) میں آج کے دن(عرفہ) کی حرمت ہے»۔(متفق علیہ) نیز ارشاد ہے: «ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی صورت میں ہوگا»۔ (متفق علیہ) نیز ارشاد ہے: «جس نے اپنے بھائی پر کوئی زیادتی کی ہو تو اس سے معاف کروالے, کیونکہ وہاں (بروز قیامت) درہم ودینار نہیں ہوگا,اوراس کی نیکیاں اس سے لے کر اس کے بھائی کو دے دی جائیں گی, اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے»۔ (بخاری)
                ٥۔ اﷲسے ہدایت طلب کرنا ضروری ہے, اسی لئے ہرصلاة کی ہررکعت میں  ﮋﭧ   ﭨ  ﭩ کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے۔ نبیe اپنی رات کی دعا میں پڑھا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ, فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ, عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ, أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ, اِهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِـإِذْنِكَ, إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ». (صحیح مسلم) [اے اللہ! جبرائیل ومیکائیل واسرافیل کے رب، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غائب وحاضر کے جاننے والے، اپنے بندوں کے اختلافی امور میں تو ہی فیصلے کرتا ہے، اختلافی امور میں اپنے حکم سے مجھے حق کی ہدایت نصیب فرما۔ بے شک تو ہی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرماتا ہے]۔ نیز نبیe سے ایک دعا اس طرح مروی ہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْألُكَ الْهُدَىٰ، وَالتُّقَىٰ، وَالْعَفَافَ، وَالْغِنَىٰ»۔(صحیح مسلم) [اے اﷲ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، پاکدامنی اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں]۔
                صحیح مسلم میں طارق t سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا تو نبی e اسے صلاة کی تعلیم دیتے, پھر اسے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیتے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي»۔ (اے اﷲ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت دے، اور مجھے رزق عطا فرما)۔
                ٦۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ اپنے دین ودنیا کی تمام ضرورتوں کا سوال اﷲہی سے کرے۔ جیسے بندہ اﷲسے ہدایت ومغفرت کا سوال کرتا ہے ویسے ہی کھانے، پینے اور پہننے کی چیزیں بھی اسی سے مانگے۔ ایک اور حدیث میں ہے: «تم میں سے ہرکوئی اپنی ہر ضرورت اپنے رب ہی سے مانگے, حتی کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جانے پر وہ بھی اسی سے مانگے»۔(صحیح ابن حبان)
                ٧۔ اﷲتعالی رزاق ہے, اسی کے ہاتھ میں رزق کے خزانے اور اس کی کنجیاں ہیں۔ ارشاد مولا ہے: ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ   ﭾ  العنكبوت: ١٧  [تم اﷲ ہی سے روزیاں طلب کرو, اور اسی کی عبادت کرو]۔ اس لئے جب بھی بندۂ مومن کو تنگدستی کا سامنا ہوتا ہے, یا وہ فقر ومحتاجی میں گھر جاتا ہے, تو وہ  لوگوں سے اپنی امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں رکھتا ہے،اسی سے لو لگاتا, اور اسی کے فضل وکرم کا طالب ہوتا ہے۔
                ٨۔ آدم کے بیٹے صبح وشام خطائیں کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اﷲکی جانب سے عفو ومغفرت کا مژدہ ہے, بشرطیکہ بندہ اس سے مغفرت کا طالب ہو, حالانکہ بہت سارا فضل وکرم طلب مغفرت کے بغیر بھی ہے۔
                رسول اﷲe  کا ارشاد ہے: «اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے, اگر تم گناہ نہ کرو تو اﷲتعالی تم کو ختم کرکے ایک ایسی قوم لائے گا جو گناہ کریں گے, پھر اپنے رب سے مغفرت کے طالب ہوں گے, اور اﷲان کی بخشش فرمائے گا»۔ (مسلم)
                ٩۔سچی توبہ اوراستغفار کے ذریعہ اﷲتعالی بندہ کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے, ان کی کمیت وکیفیت جیسی ہی ہو۔ تفصیل حدیث (٤٢) میں آرہی ہے۔
                ١٠۔ اﷲتعالی اپنے بندوں سے بے نیاز ہے، اسے اطاعت گذاروں کی اطاعت سے نہ کوئی نفع پہنچتا اور نہ معصیت کاروں کی معصیت سے کوئی ضرر پہنچتا ہے۔ اﷲکا ایک نام غنی(بے نیاز) اور دوسرا نام حمید(قابل تعریف) ہے۔
                ١١۔ حدیث سے اﷲکی قدرت وسلطنت اور بے نیازی کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اﷲتعالی بیک وقت وبیک مقام سارے انسان وجنات کو ان کی مانگی ہوئی مرادیں عطا کردے, تب بھی اس کے خزانے ختم نہیں ہوں گے, بلکہ خرچ کرنے سے کم بھی نہ ہوں گے۔
                ١٢۔ اﷲتعالی بندوں کے عمل گن گن کے رکھتا ہے, اور انھیں اس کا بھر پور بدلہ دے گا، اگر عمل خیر ہے تو اس کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھا کر عطا فرمائے گا,لیکن اگر عمل بد رہا تو اس جیسا ہی بدلہ ملے گا, زیادتی نہ ہوگی, البتہ اگر اﷲچاہے گا تو اسے بھی معاف کردے گا۔
                ١٣۔ نیکیوں کی توفیق اور عمل خیر کی آسانی ایک نعمت ہے جس پر بندہ کو اﷲ کا شکر گذار ہونا چاہئے۔
                ١٤۔ نافرمان کے لئے ایک دن ایسا آنے والا ہے جب وہ اپنے آپ کی ملامت کرے گا, لیکن اس دن ندامت وملامت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا؛ کیونکہ وقت گذر چکا ہوگا،آج دنیا میں مہلت ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اﷲکی طرف رجوع کرلے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق