الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث(١٥)


حدیث(١٥)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرَاً أَو لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَومِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَومِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ». رواه البخاري ومسلم.
ترجمہ:
                ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا احترام کرے»۔ (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ حدیث میں مذکور ایمانی خصلتیں حقوق العباد سے متعلق ہیں اور مکارم اخلاق کی جامع ہیں۔
                ٢۔ اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ مسلمان بھلی بات کہے یا چپ رہے, یعنی جب مسلمان آدمی کوئی بات بولنا چاہے تو اس کے نتیجہ پرغور کرے, کیا اس میں کوئی ضرر یا فساد یا خرابی ہے؟ اور کیا یہ بات آدمی کو کسی حرام یا مکروہ تک لے جاتی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو زبان کھولے ورنہ زبان بند رکھے کہ اسی میں عافیت اور سلامتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کی حفاظت بہت اہم ہے اور اس سے متعلق قرآن وحدیث میں بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں نبی e کا یہ ارشاد مروی ہے: «بے شک بندہ لاپرواہی کے ساتھ اﷲ کی رضا کا ایک کلمہ بولتا ہے اﷲتعالی اس کے ذریعے اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔ اور بے شک بندہ لاپرواہی کے ساتھ اﷲکی ناراضگی کا ایک کلمہ بولتا ہے اور اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں گرجاتا ہے»۔ (بخاری)
                ٣۔ بے فائدہ کثرت کلامی اور بسیار گوئی بری چیز ہے۔عمر t  کا قول ہے کہ "جو زیادہ باتیں کرتا ہے زیادہ غلطیاں کرتا ہے, اور جو زیادہ غلطیاں کرتا ہے اس کے گناہ بڑھ جاتے ہیں, اور جس کے گناہ زیادہ ہوں جہنم اس کا زیادہ حقدار ہے"۔
                ٤۔ اﷲاور یوم آخرت پر ایمان کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پڑوسی کی عزت واکرام کی جائے۔ پڑوسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا، اس کی خیر وعافیت دریافت کرنا، بیمار ہونے پر عیادت کرنا، ضرورت کے وقت کام آنا، اس کے رازوں کی حفاظت کرنا، اس کی عزت وآبرو کا دفاع کرنا،موقعہ بہ موقعہ تحفے تحائف دینا، ضرورت مند ہو تو صدقہ وخیرات سے اس کا خیال رکھنا۔ یہ سب پڑوسی کے حقوق ہیں جن کی نگہداشت ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ صحیح مسلم میں ابوذر t کی روایت ہے کہ نبی e نے ارشاد فرمایا: «اے ابوذر! جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی بڑھادو, اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو»۔ نیز نبی e کا ارشاد ہے: «جبریل علیہ السلام مجھے برابر پڑوسی سے متعلق نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ اسے وارث بنادیں گے»۔ (متفق علیہ)
                ٥۔ پڑوسی کو اذیت پہنچانا حرام اور اس کی عزت وآبرو پر حملہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ نبیe سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: «کسی کو اﷲ کا ہمسر بنانا حالانکہ اس نے تنہا تم کو پیدا کیا ہے۔ پوچھا گیا: اس کے بعد کونسا گناہ ؟آپ نے فرمایا: اپنے بچہ کو اس ڈر سے قتل کرنا کہ وہ تمھارے کھانے میں شریک ہوجائے گا۔ پوچھا گیا: پھر کونسا گناہ ؟ آپ نے فرمایا: اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا»۔ (متفق علیہ)
                صحیح بخاری میں ہے کہ نبی e نے ارشاد فرمایا: «اﷲکی قسم وہ مومن نہیں، اﷲکی قسم وہ مومن نہیں، اﷲکی قسم وہ مومن نہیں، دریافت کیا گیا: کون اے اﷲکے رسول! تو آپe نے فرمایا: جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ رہیں»۔
                پڑوسی کی عیب گیری اور مذمت، اس کے ساتھ گالی گلوج، اسے برا بھلا کہنا,اور اس کی دولت وجائداد پر غاصبانہ قبضہ وغیرہ بھی اسلامی شریعت میں حرام ہیں, کیونکہ یہ سب پڑوسی کو اذیت پہنچانے کی مختلف صورتیں ہیں۔
                ٦۔ آپ کا قریب ترین پڑوسی وہ ہے جس کا دروازہ آپ سے سب سے زیادہ قریب ہو۔ واضح رہے کہ پڑوسیوں کی تین قسمیں ہیں:
Ê  کافر پڑوسی جسے صرف پڑوس کا حق ہے۔
Ë  مسلمان پڑوسی جسے اسلام اور پڑوس کی وجہ سے دہرا حق ہے۔
Ì  مسلمان رشتہ دار پڑوسی جوتہرے حقوق کا مستحق ہے۔
                ٧۔ مہمان نوازی واجب ہے۔نبی e نے فرمایاہے: «ضیافت تین دن ہے، ایک دن اور ایک رات عطیہ ہے, اور اس کے بعد مہمان پرجو کچھ خرچ کیا جائے صدقہ ہے،کسی مہمان کے لئے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس گنہگار کردینے کی حد تک ٹھہرجائے۔ لوگوں نے پوچھا: اے اﷲکے رسول ! کیسے اسے گنہگار کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اتنی مدت تک ٹھہرجائے کہ اس کے پاس اس کی ضیافت کے لئے کچھ نہ رہ جائے»۔ (صحیح مسلم)

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق