الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٢)


حدیث (٢٢)

عَنْ أَبِيْ عَبْدِ اللهِ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيِّ - رضي الله عنه - أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: أَرَأَيتَ إِذَا صَلَّيْتُ الْمَكْتُوبَاتِ، وَصُمْتُ رَمَضَانَ، وَأَحْلَلْتُ الْحَلاَلَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ، وَلَمْ أَزِدْ عَلَىٰ ذٰلِكَ شَيْئًا أَدْخُلُ الْجَنَّةَ ؟ قَالَ: «نَعَمْ». رواه مسلم.
ترجمہ:
                جابر بن عبد اللہ t  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی e سے دریافت کیا کہ آپ مجھے بتلایئے اگر میں فرض صلاتوں کو ادا کروں, اور رمضان کا صوم رکھوں, اور حلال کو حلال سمجھوں, اور حرام کو حرام سمجھوں, اور اس پر کچھ اضافہ نہ کروں, کیا جنت میں داخل ہوجاؤں گا؟ آپ eنے فرمایا: «ہاں»۔  
(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔حدیث میں ذکر کئے گئے اعمال دخول جنت کا سبب ہیں، ان کے سوا دیگر اسباب بھی موجود ہیں, لیکن سائل نے جس قدر سوال کیا تھا اسی کے مطابق نبی e  نے اسے جواب دیا۔
                ٢۔ حدیث میں حج اور زکاة کا ذکر نہیں، ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ حج اس وقت تک فرض نہیں ہوا تھا, نیز  سائل کی حالت سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ فقیر آدمی ہے اور زکاة کی استطاعت نہیں رکھتا۔
                ٣۔ فرض نمازوں کی بہت اہمیت ہے کیونکہ نبی e نے اسے دخول جنت کا ایک سبب قرار دیا ہے۔ ہر مسلمان کو اس کا اہتمام اور اس کی پابندی ضروری ہے۔ صحیحین میں نبی e کی ایک حدیث ہے: «جس نے دو ٹھنڈی صلاتیں (فجر وعصر) اداکیں جنت میں داخل ہوگا»۔ نیز ارشاد ہے: «جس نے ہر صلاة کو اس کے وقت پر ادا کیا اس کے لئے اﷲکے پاس یہ عہد ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا»۔ (ابوداود)
                ٤۔ صوم رمضان بھی دخول جنت کا ایک سبب ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اﷲتعالی نے فرمایا: «بندہ کا ہر عمل خود اس کے لئے ہوتا ہے، ہرنیکی کا دس گنا ثواب ہوتا ہے, سوائے صوم کے کہ وہ میرے لئے ہے, اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا»۔ (متفق علیہ)
                ٥۔"حلال کو حلال سمجھوں"  کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حلال مان کر اس پر عمل کروں لہذا اس میں واجب ومستحب اور مباح سب داخل ہے۔ "حرام کو حرام سمجھوں"  کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حرام مان کر اس سے دور رہوں۔ جس نے کسی حرام کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھا تو اگر چہ وہ اس کا ارتکاب نہ کرے پھر بھی کافر ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ کسی حلال کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنے پر بھی ہے۔
                ٦۔ جس شخص نے کسی کمی بیشی کے بغیر فرائض کی ادائیگی کی اور محرمات سے اجتناب کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
                ٧۔ جملہ انسانی اعمال یا تو دل سے کئے جاتے ہیں, یا دیگر جسمانی اعضاء سے, اور یا شریعت نے انھیں کرنے کی اجازت دی ہے, یا ان کے کرنے سے روکا ہے, جن کاموں کی اجازت دی گئی ہے انھیں حلال کہا جاتاہے, اور جن کاموں سے روکا گیا ہے انھیں حرام کہا جاتا ہے, اس لحاظ سے حلال وحرام میں سارے کام داخل ہوجاتے ہیں۔ جو شخص حلال کو حلال سمجھ کر اپنائے, اور حرام کو حرام سمجھ کر دور رہے, گویا اس نے پورے دین پر عمل کرلیا؛ کیونکہ حلال وحرام سے باہر کوئی چیز نہیں۔
                ٨۔ جس شخص کو دینی مسائل معلوم نہ ہوں اسے علماء کرام سے دریافت کرنا چاہئے، اس میں شرم وحیا نقصان دہ اور قابل مذمت ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق