الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٣١)


حدیث (٣١)

عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ سَعْدِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِي - رضي الله عنه - قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! دُلَّنِيْ عَلَىٰ عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِيَ اللّٰهُ، وَأَحَبَّنِيَ النَّاسُ؟ فَقَالَ: «اِزْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللّٰهُ، وَازْهَدْ فِيْمَا عِنْدَ النَّاسِ يُحِبَّكَ النَّاسُ». حديث حسن رواه ابن ماجه وغيره بأسانيد حسنة.
ترجمہ:
                سہل بن سعد ساعدی t سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی e کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جسے میں کرلوں تو اللہ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ آپ eنے فرمایا: «دنیا میں زہد(بے رغبتی) اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا, اور لوگوں کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس سے بے رغبت رہو تو لوگ تم سے محبت کریں گے»۔   (حدیث حسن ہے۔ ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ اس حدیث میں اﷲاور اس کے بندوں کی محبت حاصل کرنے کا گر سکھایا گیا ہے۔انسان کی اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے خالق اور تمام مخلوقات کے یہاں محبوب ہوجائے۔
                ٢۔ دنیا سے زہد وبے رغبتی ایک فضیلت والا عمل اور اﷲ کی محبت کا باعث ہے۔ زہد آخرت میں نفع نہ دینے والی تمام چیزوں کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔ زہد کی بنا پر انسان دنیا کی طرف مائل نہیں ہوتا, بلکہ اس کی حالت نبی e کے اس ارشاد کے مصداق ہوتی ہے کہ «دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی پردیسی یا راہگذار مسافر»۔ (بخاری) زہد دنیا سے کنارہ کشی کا نام نہیں, بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے اور اس کی جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے دلچسپی، اس کی لالچ اور اس کی محبت دل سے نکال دینے کا نام ہے۔
                دنیا کے بارے میں اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮌ  ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  الحديد: ٢٠  [اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا اور کچھ بھی تو نہیں]۔ نیز ارشاد ہے: ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗﭘ  ﭙ  ﭚ  ﭛ     ﭜ  ﭝﭞ  ﭟ   ﭠ  ﭡ العنكبوت: ٦٤ [یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے اور بے شک آخرت کا گھر وہی ہمیشہ کا گھر ہے، اگر وہ جانتے ہوتے]۔
                دنیا کی عیش وراحت کے لئے بعض لوگ حلال وحرام کی تمیز نہیں کرتے, جب کہ آخرت کی سزا کے مقابلہ میں دنیا کے عیش وراحت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ رسول اﷲe  نے فرمایا ہے: «بروز قیامت جہنمیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال رہا ہوگا، اسے جہنم میں ایک غوطہ دے کر پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تونے کبھی راحت دیکھی؟ کیا کبھی تجھ پر خوشحالی کا گذر ہوا؟ وہ کہے گا: نہیں، اﷲکی قسم، اے میرے رب۔ اور جنتیوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ دکھی اور مصیبت زدہ تھا، اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا, پھر اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم ! کیا تونے کبھی سختی اور تنگی دیکھی ہے؟ کیا تیرے ساتھ کبھی سختی کا گذر ہوا؟ وہ کہے گا: نہیں, اﷲکی قسم ! میرے ساتھ کبھی سختی کا گذر نہیں ہوا، نہ کبھی میں نے سختی اور تکلیف دیکھی»۔ (صحیح مسلم)
                ٣۔لوگوں کی محبت حاصل کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں پائی جانے والی چیزوں کی لالچ نہ کی جائے, بلکہ ان کے مال ودولت سے زہد وبے رغبتی اختیار کی جائے, کیونکہ انسان اپنے سامنے ہاتھ پھیلانے والے کو اپنے سے کمتر وحقیر اور ایک بوجھ سمجھتا ہے، مال خرچ کرنے میں گرانی محسوس کرتا ہے, یہی وجہ ہے کہ سائل سے بغض ونفرت اور کراہت پیدا ہوتی ہے۔
                 مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے فکر وغم اور بے چینی پیدا ہوتی ہے, اس کے برخلاف اگر بندہ بندوں سے بے نیاز ہوکر اپنی ساری امیدیں اﷲسے وابستہ کردے، اسی پر اعتماد وتوکل کرے,  اسی سے اپنی مرادیں مانگے, کیونکہ اس کے فضل وکرم کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے, تو اس سے جہاں اس کے قلب وروح کو اطمینان وسکون نصیب ہوگا, وہیں اﷲتبارک وتعالی اس کے لئے ہر مشکل کو آسان کردے گا، ہر دشواری کو سہولت میں بدل دے گا, اس کو ایسی جگہوں سے رزق عطا فرمائے گا جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا،اس کے سارے غم دور کردے گا, اور اسے ایسی قابل رشک آزادی عطافرمائے گا جس سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز نہیں۔
                ٤۔ دنیا سے زہد وبے رغبتی جب تک شرعی حدود میں ہو قابل مدح ہے, لیکن اگر ان حدود کو تجاوز کرجائے تو وہ قابل مذمت ہوجاتا ہے۔ گمراہ صوفیوں نے زہد کے نام پر خلوت گزینی اور خانقاہ نشینی ایجاد کی, پھر جہالت میں غوطہ زن کرکے ہر ضلالت کو فروغ دیا,لہذا افراط وتفریط سے خبردار رہنا نہایت اہم ہے۔ کچھ لوگوں نے حلال کمانے، شادی بیاہ کرنے، اولاد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ہونے, اور علم حاصل کرنے کو بھی دنیاداری سمجھ لیا ہے, حالانکہ ان امور کا اسلامی شریعت میں حکم دیا گیا ہے, اور انھیں امور پر اسلامی تمدن قائم ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق