الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٥)


حدیث (٢٥)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ -رضي الله عنه- أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالُوا لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -: يَارَسُولَ اللهِ! ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُوْرِ، يُصَلُّوْنَ كَمَا نُصَلِّيْ، وَيَصُوْمُوْنَ كَمَا نَصُوْمُ، وَيَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: «أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُوْنَ بِهِ؟ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةً, وَكُلِّ تَكْبِيْرَةٍ صَدَقَةً, وَكُلِّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةً, وَكُلِّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةً, وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ, وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ, وَفِيْ بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ». قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَيَأْتِيْ أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكُوْنُ لَهُ فِيْهَا أَجْرٌ؟ قَالَ: «أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِيْ حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيْهَا وِزْرٌ؟ فَكَذٰلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ». رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
ترجمہ:
                ابوذر t  کا بیان ہے کہ نبی e کے بعض صحابہ نے آپ e سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! دولت مند لوگ سارا ثواب لے گئے, وہ صلاة پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں، وہ صوم رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، اس پر مزید وہ اپنے فاضل مالوں میں سے صدقہ وخیرات کرتے ہیں۔ آپ e نے فرمایا: «کیا اللہ نے بعض اعمال ایسے نہ بنائے ہیں جن کے ذریعہ تم صدقہ کرو،ہرسبحان اللہ ایک صدقہ ہے، ہر اللہ أکبر ایک صدقہ ہے، ہر الحمد للہ ایک صدقہ ہے،ہر لاالہ الا اللہ ایک صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے منع کرنا صدقہ ہے, اور تمھاری شرمگاہ (کے حلال استعمال کرنے) میں صدقہ ہے»۔ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرتا ہے اور اس میں بھی اجر پاتا ہے ؟ آپ e نے فرمایا: «مجھے بتلاؤ اگر وہ اسے حرام میں استعمال کرتا تو اس پر گناہ ہوتا؟ ایسے ہی جب اس نے اسے حلال میں استعمال کیا تو اس کے لئے ثواب ہے»۔  (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ صحابۂ کرام y کے اندر نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور آگے بڑھنے کا شدید جذبہ موجود تھا ,اسی لئے جب غریب مہاجرین نے دیکھا کہ مالدار لوگ صدقہ وخیرات کرلینے کی وجہ سے ان سے آگے بڑھ گئے, تو انھوں نے بھی اس بلند مقام کو پانے کے لئے نبی e سے دریافت کیا, چنانچہ آپ نے ان کو ایسے صدقات کی رہنمائی کی جس کی وہ استطاعت رکھتے تھے, آپe نے انھیں بتلایا کہ اﷲ کا ذکر صدقہ کے قائم مقام ہے۔
                ٢۔ ایک مسلمان کے لئے اپنے مسلمان بھائی کو ملی ہوئی نعمت کے پانے کی تمنا کرنا جائز ہے, جیسا کہ غریب صحابہ نے مالدار صحابہ پر رشک کیا,لیکن اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا حسد ہے اور حرام ہے۔
                ٣۔ درحقیقت نیکیاں ہی مقابلہ کا کشادہ میدان ہیں۔ اہل ایمان دنیاوی ترقیوں،مال ودولت، بلند عمارتوں اور زیب وزینت میں مقابلہ کرنے کے بجائے اعمال خیر میں مقابلہ کیا کرتے ہیں۔
                ٤۔تسبیح وتحمید اور تہلیل وتکبیراﷲ کا بہترین ذکر ہیں اور صدقہ کے قائم مقام ہیں۔ ذکر کے بعض فضائل حدیث(٢٣) میں گذر چکے ہیں۔
                ٥۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ایک صدقہ ہے۔ معروف وہ ہے جو شریعت میں معروف ہو, اور شریعت نے اسے باقی وثابت رکھا ہو۔ منکر وہ ہے جس کا شریعت نے انکار کیا ہو, اور اسے باقی وثابت نہ رکھا ہو۔
                امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی وہ عمل ہے جس کی بنا پر اس امت کو اﷲتعالی نے خیر امت کہا ہے: ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ  ﭤ   ﭥ  ﭦ  ﭧ   ﭨ  ﭩ  آل عمران: ١١٠ [تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے,  تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو, اور بری باتوں سے روکتے ہو, اور اﷲتعالی پر ایمان رکھتے ہو]۔
                 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑنا لعنت کا باعث ہے: ﭩ  ﭪ      ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ   ﭳ  ﭴﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ   ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁﮂ  ﮃ   ﮄ  ﮅ  ﮆ  ﮇ  المائدة: ٧٨ – ٧٩ [بنی اسرائیل کے کافروں پر داود علیہ السلام اور عیسی بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی, اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے, اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے, آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے, جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا ًوہ بہت برا تھا]۔
                نبی e کا ارشاد ہے: «تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے, اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے, اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے, اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے»۔ (مسلم)
                ایک شخص جو خود کسی عملی کوتاہی میں مبتلا ہے کیا وہ کسی دوسرے کو بھلائی کا حکم دے سکتا اور برائی سے روک سکتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ ہر بندے پر دو چیزیں فرض ہیں: ایک خود اپنے نفس کو بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا, اور دوسرا فرض دوسروں کو بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، اگر کسی بندے سے ایک حکم کی ادائیگی میں کوتاہی ہورہی ہو تو اسے دوسرے حکم کی ادائیگی ضرور کرنی چاہئے, تاکہ اس پر دوہرا گناہ اکٹھا نہ ہو۔البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اکمل وافضل طریقہ بہر صورت یہی ہے کہ انسان جن باتوں کا دوسروں کوحکم  دے رہا ہے پہلے خود ان پر عمل پیراہو, اور جن باتوں سے روک رہا ہے خود بھی ان سے پرہیز کرتا ہو۔
                ٦۔ بیوی کے پاس جانا اور اس سے ہمبستری کرنا صدقہ ہے, خصوصاً اس وقت جبکہ اس سے اپنی اور اپنی بیوی کی شرمگاہوں کی حفاظت،عفت وپاکدامنی اور صالح اولاد کا حصول مقصودہو, جن کی تعلیم وتربیت اﷲکی مرضی کے مطابق کرے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرعمل میں نیک نیتی کی بڑی اہمیت ہے۔
                ٧۔حلال کو اختیار کرنا تاکہ حرام سے بچا جاسکے باعث اجر و ثواب ہے۔ واضح رہے کہ حلال میں ان تمام حرام چیزوں کا پاکیزہ بدل موجود ہے جن کی طرف انسان کی طبیعت مائل ہوتی ہے، اگر کوئی چاہے تو حلال کو اپنا کر حرام سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ کیا ہی عمدہ دعا ہے: «اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ» [اے اﷲ! اپنے حرام سے بچاکر اپنا حلال میرے لئے کافی کردے، اور اپنے فضل کے ذریعہ اپنے سوا دوسروں سے مجھے بے نیاز کردے]۔
                ٨۔ خیر اور نیکی کے راستے بہت سے ہیں, اگر کسی کو کسی خاص نیکی کی استطاعت نہیں ہے تو نیکی کا دوسرا دروازہ اس کے لئے کھلا ہوا ہے، جو غریب ہونے کی بنا پر صدقہ وخیرات نہیں کرسکتا وہ اﷲ کا ذکر بہ آسانی کرسکتا ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق