الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٩)


حدیث (٢٩)

عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ, قَالَ: «لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيْمٍ, وَإِنَّهُ لَيَسِيْرٌ عَلَىٰ مَنْ يَسَّرَهُ اللّٰهُ تَعَالَىٰ عَلَيْهِ: تَعْبُدُ اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ». ثُمَّ قَالَ: «أَلَا أَدُلُّكَ عَلَىٰ أَبْوَابِ الْخَيْرِ: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيْئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ», قَالَ: ثُمَّ تَلَا: ﮔ  ﮕ   ﮖ  ﮗ  ﮘ  ﮙ  حَتَّىٰ بَلَغَ: ﮬ  [السجدة:16-17] ثُمَّ قَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّـهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ؟» قُلْتُ: بَلَىٰ يَارَسُولَ اللهِ! قَالَ: «رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ, وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ, وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ», ثُمَّ قَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذٰلِكَ كُلِّهِ ؟» قُلْتُ:بَلَىٰ يَارَسُولَ اللهِ! فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ وَقَالَ: «كُفَّ عَلَيْكَ هٰذَا». فَقُلْتُ يَانَبِيَّ اللهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَامُعَاذُ! وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ - أَو قَالَ -: عَلَىٰ مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ». رواه الترمذي وقال: حديث حسن صحيح.
ترجمہ:
                معاذ t فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے دور کردے۔ آپ eنے فرمایا: «تم نے مجھ سے بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے, البتہ وہ اس شخص کے لئے آسان ہے جس پر اللہ آسان کردے،تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرو، صلاة کی پابندی کرو، زکاة کو ادا کرو، رمضان کا صوم رکھو، بیت اللہ کا حج کرو»۔ پھر فرمایا: «کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتلادوں:  صوم ڈھال ہے, اور صدقہ گناہوں کو اسی طرح مٹادیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھادیتا ہے، اور رات کی تنہائی میں آدمی کی صلاة»۔ پھر آپ نے (سورہ سجدہ کی آیت 16-17) ﮔ  ﮕ   ﮖ  ﮗ ﮘ  ﮙ  سے     تک تلاوت فرمائی۔پھر فرمایا: «میں تمھیں پورے معاملہ کے سرے، اس کے ستون اور اس کے کوہان کی چوٹی کی خبر نہ دوں؟»  میں نے کہا: ضرور اے اللہ کے رسول۔ آپ نے فرمایا: «معاملہ کا سرا اسلام ہے, اور اس کا ستون صلاة ہے, اور اس کے کوہان کی چوٹی جہاد ہے»۔ پھر فرمایا: «کیا میں تم کو ان سب کے اصل کی خبر نہ دوں؟» میں نے کہا: ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنی زبان پکڑ کے ارشاد فرمایا: «اس کو اپنے اوپر روکے رکھو»۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ! کیا ہم اُس پر بھی پکڑے جائیں گے جو ہم بولتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: «تمھاری ماں تمھیں گم کرے, آخر لوگوں کو جہنم میں ان کے منہ کے بل یا فرمایا:ان کے نرخروں کے بل ان کی زبانوں کا کیا ہی تو گرائے گا»۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ صحابہ y نبی کریم e سے ایسے سوالات کیا کرتے تھے جو ان کے لئے دینی طور پر مفید ہوتے تھے, جس سے جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ لایعنی سوالات کرتے ہیں، کبھی عالم کو آزمانے کے لئے, اور کبھی اپنا علم دکھلانے کے لئے۔ اﷲ ہمیں نیک توفیق دے۔
                ٢۔ نبی e نے معاذ t کی حوصلہ افزائی کی, ان کا شوق بڑھایا,اور ان کے سوال کی تعریف کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی چیز کا سوال جس سے آدمی جنت پاجائے اور جہنم سے بچ جائے بہت عظیم سوال ہے۔اسی سوال کا جواب دینے کے لئے تو سارے انبیاء آئے اور ساری کتابیں نازل کی گئیں۔
                ٣۔ توفیق ارزانی اﷲکے ہاتھ میں ہے، وہ جسے ہدایت دے اس کے لئے ہدایت کی راہ آسان ہوجاتی ہے, اور جسے محروم کردے اس کے لئے دشوار گذار ہوجاتی ہے۔ ارشاد ہے: ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ    ﮮ   ﮯ  ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ   ﯚ  ﯛ  ﯜ    ﯝ  الليل: ٥ - ١٠  [جس نے دیا (اﷲ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا, تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے, لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی,اور نیک بات کی تکذیب کی, تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کردیں گے]۔
                 جو لوگ راہ ہدایت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اﷲتعالی سے اس پر ثبات قدمی کی دعا کرتے رہتے ہیں, وہ اﷲکی ذات سے یہ یقین رکھیں کہ وہ ضرور باتوفیق ہوں گے۔ ارشاد باری ہے: ﮠ   ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤالعنكبوت: ٦٩ [جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں, ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھادیں گے]۔
                ٤۔ جہنم سے بچانے والی اور جنت میں داخلہ دلانے والی سب سے پہلی چیز توحید ہے۔ اس سے توحید کی اہمیت وعظمت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے اندر سب سے پہلا حکم یہی ہے۔ ارشاد ہے: ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ   ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ البقرة:٢١ [اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمھارا بچاؤ ہے]۔
                توحید یہ ہے کہ اﷲتعالی کو اس کی ربوبیت والوہیت اور اسماء وصفات میں یکتا اور بے مثال مانا جائے,  یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ اپنے تمام کاموں میں اکیلا ہے, تمام عبادات کا تنہا مستحق ہے, اس کے جملہ اسماء وصفات اس کے لئے اس کے شایان شان ثابت ہیں,  اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔
                کسی بھی عبادت کے قبول ہونے کی دو شرطیں ہیں: ایک اخلاص اور دوسرے اتباع سنت۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﮐ   ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘ النساء: ١٢٥   [باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے جو اپنے کو اﷲکے تابع کردے اور ہوبھی نیکو کار؟]۔ اﷲکے تابع ہونے کا مطلب اﷲکے لئے مخلص ہونا, اور نیکوکار ہونے کا مطلب ہے متبع سنت ہونا۔
                ٥۔ شرک ایسا منحوس اور خطرناک عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔شرک اس روئے زمین پر کئے جانے والے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ شرک کرنے والے انسان پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
                شرک یہ ہے کہ اﷲکی خصوصیات میں غیر اﷲکو اﷲکے برابر کردیا جائے۔ شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک اکبر جس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے, اور توبہ کے بغیر اس کی بخشش نہیں ہوتی۔ دوسری قسم شرک اصغر ہے جو شرک اکبر تک پہنچانے کا ذریعہ ہے؛ مثلاً ریا ونمود، غیر اﷲ کی قسم وغیرہ۔
                شرک اکبر یہ ہے کہ وہ امور جن کا مستحق صرف اﷲہے غیر اﷲکو دے دیئے جائیں یا کوئی عبادت غیر اﷲکے لئے کی جائے۔ اس  کی چار قسمیں ہیں:
                ¡۔ دعا میں شرک: عبادت میں شرک کی تمام قسمیں اس میں داخل ہیں؛ مثلاًغیر اﷲسے دعا کرنا، ان سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا، ان کی پناہ ڈھونڈنا، ان کے لئے قیام،رکوع اور سجدہ کرنا، ان کے لئے نذر ونیاز دینا یا جانور ذبح کرنا،کعبہ کے سوا کسی اور جگہ کا طواف اور حج کرنا وغیرہ۔
یارسول اﷲمدد، یاعلی مدد، یا غوث مددپکارنے والا شرک میں واقع ہوجاتا ہے۔
                ¢۔ نیت وارادہ میں شرک: اور اس کی چار قسمیں ہیں:
(١) جنت کی طلب اور جہنم سے نجات مقصد ہونے کے بجائے جان ومال اور اہل وعیال کی حفاظت اور دنیوی ترقی وغیرہ مقصود ہو۔
(٢) آخرت کے ثواب کے بجائے صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہو۔
(٣) نیک عمل کرکے صرف مال کمانا مقصود ہو؛ مثلاً مال کمانے کے لئے حج کرے یا جہاد کرے, یا صلاة کی پابندی اس لئے کرے کیونکہ مسجد میں ملازم ہے وغیرہ۔
(٤) عمل تو خالص اﷲکے لئے کرے لیکن ساتھ ہی کوئی ایسا کفریہ عمل بھی کرتا ہو جس سے اسلام سے نکل جائے۔
                £۔ اطاعت میں شرک: اطاعت میں شرک یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی واضح،صحیح اور صریح دلیل آجانے کے باوجود اپنے عالم، عبادت گذار،امام اور بڑے کی بات نہ چھوڑے اور قرآن وحدیث کو چھوڑدے۔
                ¤۔ محبت میں شرک: غیر اﷲسے اﷲجیسی یا اﷲسے بڑھ کر محبت رکھنا شرک ہوجاتا ہے۔
                ٦۔ ارکان اسلام کی بڑی اہمیت ہے، شریعت کے مطابق ان کی ادائیگی اور پابندی جنت میں داخلہ کا سبب ہے۔
                ٧۔ خیر کے دروازے بہت سے ہیں۔ واجبات وفرائض کے علاوہ نوافل ومستحبات بہ کثرت ہیں۔
                ٨۔ صوم ڈھال ہے۔ صوم کے ذریعہ ایک مومن دنیا میں معصیت اور گناہ سے اور آخرت میں جہنم سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔ماہ رمضان کے فرض صوم کے علاوہ بعض دوسرے ایام میں صوم رکھنے کی ترغیب احادیث میں آئی ہے جو حسب ذیل ہیں:
                محرم کی دسویں تاریخ کاصوم، میدان عرفات میں موجود حاجیوں کے علاوہ کے لئے عرفہ (٩ذوالحجہ) کا صوم،سوموار اور جمعرات کا صوم، ہرمہینہ میں تین دن کا صوم، ایک دن ناغہ کرکے صوم، شوال کے چھ دنوں کا صوم، ماہ محرم اور ماہ شعبان میں صوم۔
                ٩۔ صدقہ کے بے شمار فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ وہ گناہوں کو مٹاتا اور ان کا کفارہ بنتا ہے۔نیز نبی e کا ارشاد ہے: «ہرآدمی (بروز قیامت) اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے»۔ (صحیح الترغیب)
                ١٠۔ قیام اللیل خیر کا ایک عظیم دروازہ ہے۔ اس کی فضیلت میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔ ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول e نے فرمایا: «فرض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة ہے»۔(صحیح مسلم) عبد اﷲبن سلامt سے مروی ہے کہ نبی e نے فرمایا: «اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تو صلاة پڑھو, جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے»۔ (ترمذی) جابر t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲe  کو فرماتے سنا کہ «بے شک رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جسے کوئی مسلمان شخص اﷲسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگتے ہوئے پاجائے تو اﷲتعالی اس کا سوال ضرور عطا فرماتا ہے, اور وہ گھڑی ہر رات میں آتی ہے»۔ (مسلم)
                ١١۔ نبی e بھی قرآن پاک کو بطور دلیل پیش کیا کرتے تھے۔ آپe نے رات کی صلاة کی اہمیت بتلاتے ہوئے آیت تلاوت فرمائی: ﮔ  ﮕ   ﮖ  ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ   ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ      ﮩ   ﮪ  ﮫ       ﮬ السجدة:١٦– ١٧  [ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جوکچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں، کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے
                ١٢۔ دین کا سرا اسلام ہے۔ اسلام سے مراد شہادتین ہے جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تفسیر موجود ہے۔ جو شخص اپنے ظاہر وباطن میں شہادتین کا اقرار نہ کرے, اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
                شہادتین کے بعد سب سے اہم چیز صلاة ہے, جسے حدیث میں اسلام کا ستون قرار دیا گیا ہے۔
                ١٣۔ اﷲکے یہاں جہاد فی سبیل اﷲ کا بڑا عظیم مرتبہ ہے, اسی لئے اسے کوہان کی بلندی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جہاد کی فضیلت میں بے شمار آیات واحادیث ہیں۔ جہاد جان سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی اور زبان سے بھی۔ جان سے جہاد یہ ہے کہ اسلام کی نشرواشاعت میں اور بوقت ضرورت کفار سے لڑائی میں پوری محنت وسعی کی جائے، مال کا جہاد یہ ہے کہ مجاہدین کے لئے ہتھیار وغیرہ خریدنے اور دیگر اخراجات کے لئے مال خرچ کیا جائے, اور زبان کا جہاد یہ ہے کہ کفار ومنافقین کو اﷲکی طرف بلایا جائے اور ان پر حجت قائم کردی جائے۔
                ١٤۔ زبان بڑی خطرناک چیز ہے، اسے قابو میں رکھنے سے ہی ہرقسم کی بھلائی ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ    ﭯ  ﭰ  ﭱ  ق: ١٨ [ (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے]۔ اور یہ حدیث گذر چکی ہے کہ نبی e نے فرمایا: «جو اﷲاوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے»۔
                زبان ہی وہ چیز ہے جس سے خیر وشر کے بہت سے اعمال صادر ہوتے ہیں۔ زبان ہی سے آدمی اﷲکا ذکر کرتا، اس کی تسبیح وتحمید اور تہلیل وتکبیر کہتا ہے، بھلائیوں کا حکم دیتا اور برائیوں سے روکتا ہے، اﷲکے دین کی طرف بلاتا اور غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے۔ دوسری طرف اسی زبان سے کفریہ کلمات بکتا، گالی گلوج کرتا، جھوٹ بولتا، جھوٹی تہمت لگاتا، جھوٹی گواہی دیتا، لوگوں کی عزت وآبرو سے کھلواڑ کرتا، زبان درازی کرتا, حق کی راہ سے روکتا،بے علمی کے ساتھ فتوے دیتا، باطل کا پرچار کرتا اور کفر وشرک اور بدعات کی دعوت دیتا ہے۔
                زبان کا استعمال اگر خیر وبھلائی میں ہے تو انجام بخیر ہے, اور اگر شر وبدی میں ہے تو انجام بھی اسی کے مطابق ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاموشی سلامتی اور عافیت اور ہلاکتوں سے نجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق