الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٨)


حدیث (٨)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا - أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّىٰ يَشْهَدُوا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدَاً رَسُوْلُ اللهِ, وَيُقِيْمُوْا الصَّلَاةَ, وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ, فَإِذَا فَعَلُوا ذٰلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهَمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ, وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ تَعَالَىٰ». رواه البخاري ومسلم.
ترجمہ:
                ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا: «مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں, اور صلاة قائم کریں, اور زکاة ادا کریں, جب وہ ایسا کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیں گے, سوائے اسلام کے حق کے, اور ان کا حساب اللہ تعالی پر ہے»۔ (اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ حدیث عام ہے لیکن قرآن مجید کی ایک آیت اسے خاص کردیتی ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: ( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) التوبة: ٢٩  [ان لوگوں سے لڑو جو اﷲپر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے, جو اﷲاور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں, ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں]
                لوگوں سے جنگ اس وقت تک فرض ہے حتی کہ وہ اﷲکے دین میں داخل ہوجائیں یا جزیہ ادا کریں۔
                ٢۔ شہادتین کا فقط اقرار کرلینے سے آدمی مسلمان ہوجاتا ہے, اس کے بعد اگر وہ اسلامی شریعت پر کار بند ہوتا ہے تو اس کے بھی وہی حقوق و فرائض ہیں جو دیگر مسلمانوں کے ہیں, لیکن اگر وہ کسی رکن کو ترک کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنا ایک پر شوکت گروہ بنالیتے ہیں تو ان سے جنگ کی جائے گی۔
                ٣۔ صلاة کا قائم کرنا اور زکاة کی ادائیگی اسلام کا حق ہے۔ ابوبکررضی اللہ عنہ نے مانعین زکاة سے جنگ کے وقت فرمایا تھا: "اﷲکی قسم ! میں ان سے ضرور جنگ کروں گا جو صلاة اور زکاة کے درمیان فرق کرتے ہیں کیونکہ زکاة مال کا حق ہے۔ اﷲکی قسم ! اگر وہ ایک رسی۔یا پٹھیا۔ جو اﷲکےرسول e  کو دیا کرتے تھے مجھ کو نہیں دیں گے تو اس کے روکنے پر میں ان سے جنگ کروں گا"۔ (متفق علیہ)
                ٤۔ اسلام قبول کرلینے سے جان ومال محفوظ ہوجاتا ہے, سوائے ان حالات کے جس میں اسلام خود اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے؛ مثلاً کسی کو ناحق قتل کردینے, یا شادی شدہ ہوکر زنا کرلینے, یا اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجانے سے جان کی حفاظت ختم ہوجائے گی۔  (مزید دیکھئے حدیث (١٤) کے فوائد واحکام)
                ٥۔ قیامت کے دن ہر بندے کواﷲکے سامنے اپنے عمل کا حساب دینا ہوگا, اگر نیکی کررکھی ہے تو اس کا انجام بخیر ہوگا, اور اگر برائی کررکھی ہے تو اسی لحاظ سے اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔
                ٦۔ جو شخص ظاہری طور پر اسلام پر قائم ہو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا, اس کے دل اور اندرونی کیفیت سے متعلق کوئی رائے نہیں قائم کی جائے گی, جب تک کہ کسی ظاہری عمل سے اس کے خلاف نہ معلوم ہوجائے۔ اگر وہ منافق ہے تو اس کا حساب بروز قیامت اﷲکے ذمہ ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق