الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٢٨)


حدیث (٢٨)

عَن أَبِي نَجِيحٍ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم مَوعِظَةً بَلِيْغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ. فَقُلْنَا: يَارَسُولَ اللهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا، قَالَ: «أُوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِيْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيْرًا؛ فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ, تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ, وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ». رواه أبو داود والترمذي وقال: حديث حسن صحيح.
ترجمہ:
                عرباض بن ساریہ t  کا بیان ہے کہ ایک بار رسول اللہ e نے ہم کو ایسا بلیغ وعظ فرمایا جس سے دل دہل گئے اور آنکھیں بہہ پڑیں, ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! گویا یہ رخصت کرنے والے کا وعظ ہے, پس آپ ہمیں وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا: «میں تمھیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں, اور سننے اور ماننے کی, اگر چہ کوئی حبشی غلام تم پر امیر بن جائے۔ تم میں سے جوکوئی میرے بعد زندہ رہے گاتو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا,اس وقت تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑ لینا,اس کو مضبوطی سے تھام لینا، اور اسے داڑھوں سے خوب جکڑلینا,اور اپنے آپ کو نئی ایجاد کردہ باتوں سے دور رکھنا,کیونکہ ہرایجاد کی ہوئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے»۔  (اسے ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث صحیح ہے)
فوائد واحکام:
                ١۔یہ حدیث چار اہم وصیتوں پر مشتمل ہے: Àاﷲسے ڈرنا Áبات سننا اور ماننا Â سنت کو مضبوطی سے تھامنا بدعتوں سے دور رہنا۔
                ٢۔ نبی کریم e اپنے صحابہ کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے, لیکن روزانہ نہیں بلکہ ناغہ کے ساتھ؛ کیونکہ روز روز کی نصیحت اکتاہٹ کا باعث ہوتی ہے۔ عبداﷲ بن مسعود t  فرماتے ہیں کہ «نبی e ہماری اکتاہٹ کے اندیشے سے ہمیں ناغہ دے کر وعظ کیا کرتے تھے»۔ (متفق علیہ)
                ٣۔ وعظ ونصیحت جس قدر بلیغ اور موثر انداز میں ہو اتنا ہی بہتر ہے۔دل دہلادینے والی اور آنکھوں کو اشکبار کردینے والی چیزوں کے تذکرے سے وعظ کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ نبی e کے وعظ وتقریر کی کیفیت بیان کرتے ہوئے جابر t  فرماتے ہیں: «نبی e جب اپنی تقریر میں قیامت کا ذکر کرتے تو آپ کا غصہ بڑھ جاتا، آواز بلند ہوجاتی، آنکھیں سرخ ہوجاتیں, گویا آپ کسی لشکر سے ڈرارہے ہیں کہ وہ صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے»۔ (مسلم)
                واعظین کو وعظ کے لئے ایسی آیات اور احادیث کا انتخاب مناسب ہے جن کا سامعین پر اثر پڑتا ہے, اور جن سے دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے, لیکن اس کے لئے جھوٹی اور ضعیف احادیث، بے ثبوت خوابوں اور قصے کہانیوں کا سہارا لینے کی مطلقاً ٍضرورت نہیں, کیونکہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں جو کچھ ہے بہت کافی ہے۔ دراصل جوشخص اﷲکے بندوں کو نفع پہنچانے میں مخلص ہوتا ہے اس کو اﷲتعالی دل کی گہرائیوں میں اترجانے والے موثر اسلوب سے نواز دیتا ہے, اور یہ تو اﷲ کا فضل ہے جسے چاہے جتنا عطا کرے۔
                ٤۔ صحابۂ کرام y نبی e کی وصیتوں کے بڑے حریص تھے۔ احادیث میں اس کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں: ایک تو یہی حدیث ہے کہ صحابہ نے کہا: آپ ہمیں وصیت فرمائیے۔ ایک حدیث گذر چکی ہے کہ ایک صحابی نے کہا: مجھے کوئی وصیت کیجئے تو آپ eنے فرمایا: «غصہ نہ کیا کرو»۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی سفر پہ جارہے تھے تو انھوں نے نبی e سے وصیت چاہی, تو آپ نے فرمایا: «میں تمھیں اﷲکا تقوی اختیار کرنے اور ہر بلند مقام پر اﷲکی تکبیر بلند کرنے کی وصیت کرتا ہوں»۔(ترمذی، ابن ماجہ)
                ٥۔ حدیث سے تقوی اور اس کی وصیت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ تقوی یہ ہے کہ آدمی اﷲکے عذاب سے بچاؤ کا سامان کرلے۔ اﷲتعالی نے تمام اگلوں اور پچھلوں کو تقوی ہی کی وصیت کی ہے۔ ارشاد ہے: ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ    ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪالنساء: ١٣١ [اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اﷲ سے ڈرتے رہو]۔
                ٦۔ مسلمان حاکموں کی سمع وطاعت واجب ہے, سوائے اس صورت کے کہ وہ اﷲکی نافرمانی کا حکم دیں۔ کتاب وسنت کے بہت سے نصوص اس پر دال ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﯵ  ﯶ  ﯷ  ﯸ  ﯹ  ﯺ  ﯻ  ﯼ   ﯽ  ﯾ النساء: ٥٩  [اے ایمان والو! فرماں برداری کرو اﷲتعالی کی, اور فرماں برداری کرو رسولe کی, اور تم میں سے اختیار والوں کی]۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: "ظاہر یہی ہے کہ یہ آیت علماء اور حکام دونوں طرح کے اختیار والوں اور ذمہ داروں کو شامل ہے۔ واﷲ اعلم"۔
                نبی e کا ارشاد ہے: «مسلمان آدمی پر اپنی پسند وناپسند سب میں سمع وطاعت واجب ہے, سوائے اس صورت کے کہ نافرمانی کا حکم دیا جائے, اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر سمع وطاعت نہیں ہے»۔(متفق علیہ)
                نیز آپ e نے فرمایا: «سنواور بات مانو اگر چہ تمھارے اوپرایسا حبشی غلام امیر متعین کردیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو»۔ (بخاری)
                ٧۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے، خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت درست نہیں۔ یہیں سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے جو لوگ خلاف شریعت امور میں بھی اپنے علماء اور حکام کی اطاعت کرتے ہیں، جیسے صوفیاء حضرات مریدوں سے کہتے ہیں کہ پیر کی کسی بات پر اعتراض درست نہیں, پیرومرشد کی مخالفت صحیح نہیں, گرچہ اس کا عمل صریح گناہ معلوم ہورہا ہو، ان کا کہنا ہے: بمے سجادہ رنگیں کن اگر پیر مغاں گوید۔ ایسے ہی وہ مقلدین بھی کھلی غلطی پر ہیں جو تعصب کی بنا پر نبیe کی صاف اور صریح حدیث کے ہوتے ہوئے اپنے امام اور اپنے مذہب کی بات آگے رکھتے ہیں۔
                ٨۔ یہ حدیث نبی e کی نبوت کی ایک نشانی اور معجزہ ہے۔  آپ e نے امت کے اختلاف کی جو پیشین گوئی فرمائی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ آپ e کا ارشاد ہے: «خبردار! تم سے پہلے اہل کتاب بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور یہ ملت عنقریب تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہوگی، بہتر(72) جہنم میں جائیں گے صرف ایک جنت میں جائے گی اور وہ جماعت ہے»۔ (صحیح الجامع٢٦٣٨) مستدرک حاکم اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ e سے اس نجات یافتہ جماعت سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «آج جس طریقہ پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں, اس طریقہ کو اختیار کرنے والی جماعت نجات یافتہ ہوگی»۔
                ٩۔ نبی e اور آپ کے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اتحاد کا راستہ اور اختلاف و تفرقہ بازی سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔صرف مضبوطی سے تھامنا نہیں, بلکہ خوب خوب مضبوطی سے تھامنا جیسے داڑھوں سے کوئی چیز مضبوط پکڑی جاتی ہے, تاکہ بدعات وہوائے نفس میں مبتلا ہوکر آدمی ان راہوں پہ نہ چلاجائے جو کتاب وسنت اور سلف صالحین کی روش سے مختلف ہیں۔
                ١٠۔حدیث میں بدعتوں سے تحذیر وتنبیہ کی گئی ہے جس کے متعلق تفصیل حدیث (٥) میں گذر چکی ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق