الأحد، 22 يوليو 2012

حدیث (٤٢)


حدیث (٤٢)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله تعالى عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: «قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ, إِنَّكَ مَا دَعَوتَنِيْ وَرَجَوتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ عَلَىٰ مَا كَانَ فِيْكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آدَمَ لَو بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَو أَتَيْتَنِيْ بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِيْ لَا تُشْرِكْ بِيْ شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغفِرَةً». رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحَيْحٌ.
ترجمہ:
                انس t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ e کو فرماتے سنا: «اﷲتعالی نے فرمایا ہے: اے آدم کے بیٹے ! تو جب بھی مجھ سے دعا کرتا ہے اور مجھ سے امید لگاتا ہے تو تیرے ہر طرح کے عمل کے باوجود میں تجھے بخش دیتا ہوں, اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں, پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے, تو میں تجھے بخش دوں گا, اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر تو میرے پاس زمین بھر غلطیاں لے کے آیا, پھر مجھ سے تو نے اس حالت میں ملاقات کی کہ میرے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا تھا, تو میں تیرے پاس زمین بھر مغفرت لے کے آؤں گا۔  (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن صحیح قرار دیا ہے)۔
فوائد واحکام:
                ١۔ یہ اس کتاب کی آخری حدیث ہے, اور نہایت اہم اور بنیادی باتوں پر مشتمل ہے۔ اسے حسن خاتمہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
                ٢۔ اس حدیث میں مغفرت کے تین اسباب ذکر کئے گئے ہیں:
¡۔ دعا وامید         
¢۔ استغفار           
£۔ شرک سے اجتناب
¡  دعا اور امید۔ اﷲ تعالی نے دعا کا حکم دیا ہے اور قبولیت کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہے: ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ غافر: ٦٠ [اور تمھارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا]۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کی کئی صورتیں ہیں: یا تو بعینہ مانگی ہوئی چیز مل جاتی ہے, یا دعا کے مطابق کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے, یا دعا کا اجروثواب آخرت کے لئے ذخیرہ کردیا جاتا ہے۔
                 ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اﷲتعالی سے دعائیں کرتا رہتا ہے، اس کی رحمتوں کا طالب اور اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہے، کبھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا, کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مایوسی اور ناامیدی کفر ہے, اور دعا کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔
                ¢ استغفار۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اﷲسے مغفرت طلب کرے۔ مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اﷲعیب کو چھپادے اور اسے معاف کردے۔ دنیا میں لوگوں کو اس کے گناہ کی اطلاع نہ ہونے پائے, تاکہ کوئی فضیحت نہ ہو, اور آخرت میں بھی معاف ہوجائے۔ حدیث میں ہے کہ: «بروز قیامت اﷲتعالی مومن بندے کے ساتھ خلوت میں ہوکر اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا,  پھر فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں پر پردہ ڈال رکھا تھا, اور آج میں انھیں تیرے لئے بخش دیتا ہوں»۔ (بخاری ومسلم)
                اسی لئے اپنے گناہوں کا اعلان کرتے پھرنا یا صرف کسی ایک شخص کو ہی اس کی اطلاع دینا بہت سنگین غلطی ہے۔ نبی e کا ارشاد ہے: «میری تمام امت معافی کے قابل ہے, سوائے علانیہ گناہ کرنے والے کے, اور علانیہ گناہ کرنا یہ بھی ہے کہ آدمی رات کو کوئی کام کرے, صبح ہونے تک اﷲنے اس کے کرتوت پر پردہ ڈال رکھا تھا, پھر وہ خود دوسروں سے کہنے لگے: اے فلاں! میں نے کل رات ایسے ایسے کیا, حالانکہ اس کے رب نے اس کے عمل پر پردہ ڈال رکھا تھا, اس نے خود اﷲکا پردہ چاک کردیا»۔(بخاری ومسلم)
                نبی e بہ کثرت توبہ واستغفار کیا کرتے تھے۔ ابوہریرہ t کی روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲe  کو فرماتے سنا: «اﷲ کی قسم! میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اﷲسے توبہ واستغفار کرتا ہوں»۔(بخاری)
                عبداﷲبن عمرt کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی e کو یہ کلمہ کہتے ہوئے سوبار شمار کرتے تھے: «رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ» (أبوداود،ترمذی) [اے میرے رب مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول کر, یقیناً تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم وکرم والا ہے]۔
                اﷲتعالی نے قرآن کریم کی کئی آیات میں استغفار کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﰐ  ﰑ   ﰒ  ﰓمحمد: ١٩ [اﷲتعالی سے اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے]۔
                استغفار ایک تو مطلق ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہرحال میں استغفار کرتا رہے, دوسرا مقید ہے جو بعض اوقات ومقامات کے ساتھ مخصوص ہے, جن کا ذکر ہم آئندہ سطور میں کررہے ہیں:
                (١) فرض صلاتوں کے بعد۔ «نبی e جب سلام پھیرتے تھے تو تین بار استغفر اﷲ کہتے تھے»۔ (مسلم)
                (٢) گناہ کے بعد۔ ارشاد باری ہے: ﭭ  ﭮ         ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ    ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  آل عمران: ١٣٥   [جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے, یا کوئی گناہ کربیٹھیں, تو فوراً اﷲکا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں, فی الواقع اﷲتعالی کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟]۔
                 علی t کہتے ہیں کہ جب مجھ سے کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو اس سے قسم لیتا ہوں, اگر اس نے مجھ سے قسم کھائی تو اس کی تصدیق کرتا ہوں, مجھ سے ابوبکر t نے حدیث بیان کی اور آپ نے سچ فرمایاکہ نبی e کا ارشادہے: «جو مسلمان کوئی گناہ کرے, پھروضو کرے, اور اچھی طرح وضو کرے, پھر دو رکعتیں صلاة پڑھے, پھر اﷲسے مغفرت طلب کرے, تو اﷲتعالی اس کی مغفرت کردیتا ہے»۔ (یہ روایت سنن میں بہ سند جید مروی ہے)
                (٣) بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد۔نبی e جب بیت الخلاء سے نکلتے تھے تو غفرانک پڑھتے تھے۔(ابوداود،ترمذی)
                (٤) آخری تشہد کے بعد۔ ابوبکر صدیق t نے اﷲکےرسول e سے عرض کیا کہ آپ ان کو کوئی ایسی دعا سکھلادیں جسے وہ صلاة کے اندر پڑھا کریں, تو آپ e نے ان کو یہ دعا سکھلائی: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا, وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ, فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ, وَارْحَمْنِي, إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ»۔ (متفق علیہ) [اے اﷲ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے, اور صرف توہی گناہوں کو بخشنے والا ہے, تو مجھ کو اپنے پاس سے خصوصی مغفرت اور بخشش عطا فرما, اور مجھ پر رحم کر, یقیناً تو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے]۔
                 علی t کی ایک طویل حدیث کے اندر اس طرح ہے کہ نبی e صلاة کے آخر میں تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان یہ کہا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ, وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ, وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ, أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ, لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ»۔  [اے اﷲ مجھ کو بخش دے, جو کچھ میں نے پہلے کیا ہے اور جوکچھ میں نے بعد میں کیا ہے, اور جو کچھ میں نے چھپ کر کیا ہے اور جو کچھ میں نے علانیہ کیا ہے, اور جو کچھ میں نے حد سے تجاوز کیا ہے اور جو کچھ تو میرے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے, اور تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں]۔ (صحیح مسلم)
                (٥) رکوع اور سجدہ کے اندر۔ عائشہ رضی اﷲعنہا کہتی ہیں کہ نبی e اپنے رکوع اور سجدہ کے اندر یہ دعا کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے: «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ, اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي»۔ [اے اﷲ، اے ہمارے رب ! میں تیری تسبیح اور تیری حمد بیان کرتا ہوں، اے اﷲ ! تو مجھ کو بخش دے]۔
                (٦) دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک میں۔ عبداﷲبن عباسt بیان کرتے ہیں کہ نبی e جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پڑھتے: «رَبِّ اغْفِرْلِيْ, وَارْحَمْنِيْ, وَاجْبُرْنِيْ, وَارْفَعْنِيْ, وَارْزُقْنِيْ, وَاهْدِنِيْ, وَعَافِنِي». (ابوداود) [اے میرے رب مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے غنی کردے, اور مجھے بلندی نصیب کر، اور مجھے رزق سے نواز ,اور مجھے ہدایت دے, اور مجھے عافیت عطا فرما]۔
                (٧) بوقت سحر۔ اﷲتعالی نے قرآن مجید میں اپنے مومن بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﭡ  ﭢ آل عمران: ١٧ [اور وہ رات کے پچھلے پہر استغفار کرتے ہیں]۔ نیز ارشاد ہے: ﮓ  ﮔ  ﮕ      الذاريات: ١٨ [اور وہ وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے]۔
                حدیث میں بالکل صحیح سند سے یہ بات ثابت ہے کہ «اﷲتعالی رات کے آخری تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے, اور کہتا ہے: کیا ہے کوئی سائل جسے میں عطا کروں؟ کیا ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا میں قبول کروں؟ کیا ہے کوئی استغفار کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں ؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے»۔(متفق علیہ)
                استغفار کے لئے سب سے شاندار الفاظ وہ ہیں جنھیں حدیث میں سیدالاستغفار کا نام دیا گیا ہے, اور جس کے الفاظ اس طرح ہیں:  «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي, لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ, خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ, وَأَنَا عَلَىٰ عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ, أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ, أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ, وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِيْ, فَاغْفِرْ لِيْ, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ». (ترجمہ:اے اﷲتو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تونے مجھے پیدا کیا ہے, میں تیرا بندہ ہوں, میں تیرے عہد اور وعدے پر(قائم) ہوں جس قدر طاقت رکھتا ہوں, میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں, اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں, تجھ سے اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں, پس مجھے بخش دے, کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا)۔
                سید الاستغفار کے بارے میں نبی e کا ارشاد ہے کہ« اگر کوئی بندہ یقین کے ساتھ اسے صبح میں پڑھ لے اور شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کی موت ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا, اور اگر یقین کے ساتھ یہ دعا رات میں پڑھ لے اور صبح ہونے سے پہلے مرجائے تو جنت میں داخل ہوگا»۔ (بخاری)
                واضح رہے کہ زبانی طور پر استغفار کے کلمات دہراتے رہنا اور گناہ پر اصرار کئے جانا قطعاً سود مند نہیں, اسے صرف ایک دعا کی حیثیت حاصل ہوگی, اﷲچاہے تو قبول کرے ورنہ ردکردے۔ فائدہ مند استغفار وہ ہے جس میں دل وزبان کی موافقت ہو، اپنے کئے پر شرمندگی ہو, اور دوبارہ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا پختہ عزم ہو۔
                £ شرک سے اجتناب: حدیث میں شرک سے اجتناب کو مغفرت کا تیسرا سبب قرار دیا گیا ہے۔درحقیقت شرک سے اجتناب اور توحید کا اختیارمغفرت کی اساس اور اس کا سب سے عظیم سبب ہے۔ جس کے پاس توحید نہیں اس کی مغفرت نہیں۔ جس کے پاس توحید ہے اس کے لئے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ   ﮦ  ﮧ  ﮨ    ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ  ﮭ  ﮮ النساء: ٤٨ [یقیناً اﷲتعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے]۔
                جو شخص کلمۂ توحید کا پورا پابند تھا, اور جس نے اپنے دل سے غیراﷲکی محبت وتعظیم، ہیبت وجلال، خوف وخشیت، توکل واعتماد، اور امیدوبیم نکال باہر کی, اس کے گناہ جل اٹھیں گے, خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں, اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیکیوں میں بدل جائیں۔
                شرک ایسا منحوس اور خطرناک عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔شرک اس روئے زمین پر کئے جانے والے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ شرک کرنے والے انسان پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ شرک کیا ہے؟ حدیث (٢٩) میں بیان کیا جاچکا ہے۔ شرک کی مذمت میں بے شمار آیات واحادیث ہیں۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی توحید پر ثابت قدم رکھے, اور شرک سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلی الله علی نبينا وسلم.

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق